کہ وہ اسی اونٹ پر حج کرے، کیونکہ یہ بھی تو اللہ کی راہ میں ہے۔ تو انھوں نے اپنی بیوی کو اونٹ دے دیا۔ حدیث کی تخریج ابو داود نے کتاب الحج میں کی ہے]
کہا خطابی نے ’’معالم السنن‘‘ میں :
’’فیہ من التفقہ جواز إحباس الحیوان، وفیہ أنہ جعل الحج من السبیل، وقد اختلف الناس في ذلک، فکان ابن عباس لا یری بأسا یعطي الرجل من زکاتہ في الحج، وروي مثل ذلک عن ابن عمر، وکان أحمد بن حنبل و إسحاق یقولان: یعطي من ذلک في الحج، وقال أبوحنیفۃ وأصحابہ وسفیان الثوري والشافعي: لا تصرف الزکاۃ إلی الحاج، سھم السبیل عندھم الغزاۃ والمجاھدون‘‘[1] انتھی
[اس حدیث میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ حیوان کو وقف کرنا جائز ہے۔ نیز اس میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ حج فی سبیل اﷲ میں داخل ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ اپنے زکات کے مال میں سے حج کے لیے دے۔ ایسی ہی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور شافعی نے فرمایا کہ زکات کا مال حج کے مصرف میں نہیں لایا جائے گا۔ ان کے نزدیک سبیل سے مراد اللہ کی راہ کے غازی اور مجاہدین ہیں ۔ ختم شد]
پس اس حدیث نے { وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} کے ایک افراد کو بیان کیا کہ وہ حج بھی ہے۔ اور ممکن ہے استدلال اس پر ساتھ حدیث سہل بن ابی حثمہ کے:
’’إن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم وداہ بمائۃ من إبل الصدقۃ، یعنی دیۃ الأنصاري الذي قتل بخیبر‘‘ أخرجہ الأئمۃ الستۃ في کتبھم، واللفظ لأبي داود۔[2]
[نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت کے طور پر دیے، یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل کیے گئے تھے۔ اس کی تخریج ائمہ ستہ نے اپنی کتابوں میں کی ہے اور مذکورہ الفاظ ابوداود کے ہیں ]
|