ابن جمیل إلا أنہ کان فقیرا فأغناہ اللّٰه ورسولہ، وأما خالد فإنکم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعہ وأعتدہ في سبیل اللّٰه ۔۔۔‘‘[1] الحدیث
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کا حکم دیا، پس کہا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولیداور عباس بن عبد المطلب نے منع کیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابن جمیل کی کیا حیثیت؟ وہ تو فقیر تھا اس کو ا للہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی بنا دیا۔ رہے خالد تو تم لوگ خالد کے ساتھ زیادتی کرتے ہو، کیونکہ اس نے اپنی زرہ اور اسلحہ وغیرہ اﷲ کی راہ میں وقف کیا ہوا ہے]
فتح الباری میں ہے:
’’و قد استدل بقصۃ خالد علی جواز إخراج مال الزکاۃ في شراء السلاح وغیرہ من آلات الحرب والإعانۃ بھا في سبیل اللّٰه ، بناء ا علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام أجاز لخالد أن یحاسب نفسہ بما حبسہ فیما یجب علیہ‘‘[2]
[خالد کے قصے سے استدلال کیا گیا ہے کہ زکات کے مال سے اسلحہ اور آلاتِ حرب اور اعانت فی سبیل اللہ جائز ہے۔اس بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنا حساب کریں اس چیز کے ساتھ جو انھوں نے اپنے اوپر عائد واجب کو ادا کرنے میں روک رکھی تھی]
اور عینی شرح البخاری میں ہے:
’’والحدیث فیہ تحبیس آلات الحرب والثیاب وکل ما ینتفع بہ مع بقاء عینہ و الخیل والابل کالأعبد‘‘[3] انتھی
[اور حدیث میں اسلحہ وغیرہ اور کپڑوں کو وقف کرنے کی دلیل ہے اور ہر اس چیز کو جس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اس کی اصل کی بقا کے ساتھ اور گھوڑا اور اونٹ، غلاموں کی مانند ہیں ۔ختم شد ]
سوم یہ کہ قولہ تعالیٰ : { وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} بلا شک کہ فرد کامل اس کے غزاۃ و مجاہدین ہیں ،
|