برخلاف جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول {وَفِیْ الرِّقَاب} کی تاویل کے سلسلے میں ان کا مسلک ہے۔ ہمارے نزدیک آزاد کرنا ملکیت کو ساقط کرانا ہے نہ کہ مالک بنانا]
اور حاشیہ کشاف میں ہے:
’’إن الأصناف الأربعۃ الأوائل ملاک لما عساہ یدفع إلیھم، وإنما یأخذونہ ملکا، فکان دخول اللام لائقا بھم، وأما الأربعۃ الأواخر فلا یملکون ما یصرف نحوھم، بل ولا یصرف إلیھم، و لکن في مصالح تتعلق بھم، فالمال الذي یصرف في الرقاب إنما یتناولہ السادۃ و المکاتبون و البائعون، فلیس نصیبھم مصروفا إلی أیدیھم حتی یعبر عن ذلک باللام المشعرۃ بتملکھم، لما یصرف نحوھم، وإنما ھم محال لھذا الصرف والمصلحۃ المتعلقۃ بہ‘‘[1]
[پہلی چار اصناف کا تعلق ملکیت سے ہے، کیوں کہ اس میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ ان کے حوالے کیا جائے اور وہ اس کو ملکیت کے طور پر لے لیتے ہیں ۔اس طور سے یہاں لام کا دخول ان کے مناسب ہے۔ رہیں چاروں آخری اصناف تو اس میں وہ لوگ مالک نہیں بنتے ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے اور نہ ان کی طرف خرچ کیا جائے گا، بجز ان مصالح کے جو ان سے متعلق ہیں ۔ وہ مال جو گردن آزاد کرنے کے لیے خرچ کیا جائے گا، اس کو صرف سید، مکاتب اور بیچنے والے ہی استعمال کرسکتے ہیں ۔ ان کا حصہ ان کے ہاتھوں سے خرچ نہیں ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی تعبیر ایسے لام سے کی جائے جو ان کی ملکیت کا پتا دیتی ہو اس کا جو کچھ ان کی جانب خرچ کیا جائے گا اور یہ سب محال ہیں ، اس مصرف کے لیے اور اس مصلحت کے لیے جو اس سے متعلق ہے]
اور مؤیدات سے عدم اعتبار التملیک کی وہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے :
’’عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: أمر رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم بصدقۃ، فقیل: منع ابن جمیل و خالد بن الولید و العباس بن المطلب، فقال النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم : ما ینقم
|