اور تفسیر ابن کثیر میں ہے :
’’فأما الرقاب فروي عن الحسن البصري ومقاتل بن حیان و عمر بن عبد العزیز وسعید بن جبیر و النخعي و الزھري و ابن یزید أنہم المکاتبون، و روي عن أبي موسی الأشعري نحوہ، وھو قول الشافعي واللیث رضي اللّٰه عنہما، و قال ابن عباس والحسن: لا بأس أن تعتق الرقبۃ من الزکاۃ، و ھو مذھب أحمد و مالک وإسحاق، أي أن الرقاب أعم من أن یعطی المکاتب أو یشتری رقبۃ فیعتقھا استقلالا ‘‘[1] انتھی
[اور رقاب سے مراد حسن بصری، مقاتل بن حیان، عمر بن عبدالعزیز، سعید بن جبیر، نخعی، زہری اور ابن یزید کی روایت کے مطابق مکاتب غلام ہیں ۔ ابو موسیٰ کے واسطے سے بھی ایسی ہی روایت بیان کی گئی ہے اور یہی شافعی اور لیث کا قول ہے۔ ابن عباس اور حسن نے کہا ہے کہ کوئی حرج نہیں ہے کہ زکات سے رقاب آزاد کرایا جائے۔ یہی مسلک احمد، مالک، اور اسحاق کا ہے۔ یعنی یہ رقاب عام ہیں اس سے کہ مکاتب کو دیا جائے یا غلام خرید کر اس کو آزاد کیا جائے]
پس {وَفِیْ الرِّقَاب} کی ایک صورت عبد اللہ بن عباس و حسن بصری و عمر بن عبدالعزیز نے یہ قرار دیا ہے کہ اموال زکوٰۃ میں سے لونڈی غلام خرید کرکے ادا کیے جاویں اور یہی قول مالک، احمد، ابو عبید و دیگر ائمہ کا ہے۔ پس اس صورت میں ’’تملیک للفقراء‘‘ [فقیروں کو مال کا مالک بنانے کی کیفیت] اصلاً نہیں پائی گئی، بلکہ وہ متصدق خود بنفسہ اس مال زکواۃ سے متولی و مباشر اس کے شراء کا ہوا، پھر اس کو آزاد کیا۔ اور اس کا بیان صاف طور پر صاحبِ ہدایہ نے کیا ہے:
’’ولا یشتري بہا رقبۃ تعتق خلافاً لمالک رحمہ اللّٰه حیث ذھب إلیہ في تأویل قولہ تعالی: {وَفِیْ الرِّقَاب} و لنا أن الإعتاق إسقاط الملک، و لیس تملیک ‘‘[2]
[اور نہیں خریدا جائے گا زکات کی رقم سے غلام جس کو آزاد کیا جائے (امام) مالک کے
|