Maktaba Wahhabi

173 - 702
لام زکات کے صرف کرنے کے محل کے بیان میں آیا ہے اور اس لیے بھی کہ فقرا و مساکین کی کثرت کی بنا پر ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وہ لوگ مجہول ہیں اور مجہول کی تملیک محال ہے] پھر جس شے کی نفی ہے، اسی کا اثبات کیا جاتا ہے۔ اور علامہ عینی نے شرح ہدایہ میں دوبارہ رفع ا س تناقض کے جو یہ لکھاہے: ’’لأن التملیک رکن، لأنہ الأصل في دفع الزکاۃ۔ فإن قلت: أنتم جعلتم اللام في الآیۃ للعاقبۃ، ودعوی التملیک بدلالۃ اللام، فلم تبق إلا دعوی مجردۃ؟ قلت: معنی جعل اللام للعاقبۃ أن المقبوض یصیر ملکا لھم في العاقبۃ، ثم یحصل لھم الملک بدلالۃ اللام، فلم تبق دعوی مجردۃ‘‘[1]انتھی [بے شک تملیک رکن ہے، کیوں کہ زکات ادا کرنے میں یہی اصل ہے۔ لیکن اگر تم یہ کہو کہ تم لوگوں نے لام کو آیت کریمہ میں معاقبت کے لیے بنا دیا ہے اور تملیک کا دعویٰ لام کی دلالت سے کرتے ہیں تو یہ صرف دعوی ہی رہ گیا۔ تو میرا جواب یہ ہے کہ لام کو معاقبت کے معنی میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ قبضے کی گئی چیز آخر کار ا ن کی ملک میں ہوگی، پھر لام کی دلالت سے انھیں کی ملکیت حاصل ہوگی۔ لہٰذا یہ خالی دعویٰ نہ ہوا۔ ختم شد] پس اس تقریر کا ضعف اور محض تاویل رکیک ہونا اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ اور تعریف ’’صدقہ‘‘ کی جو شیخ ابن الہمام نے کیا ہے، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت صدقہ کی یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے واسطے نکالے کہ وہ مال وجوہِ خیر میں صرف کیے جاویں ۔ پس جہاں محل تملیک ہوگا، وہ تملیک ہوگا، ورنہ بلا تملیک۔ اور اس کے مصارف کی تصریح حق تعالیٰ نے اپنے قول: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ۔۔۔} [التوبۃ:۶۰] میں فرمایا ہے۔ امام راغب نے ’’مفردات القرآن‘‘ میں لکھا ہے: ’’والصدقۃ ما یخرجہ الإنسان من مالہ علی وجہ القربۃ کالزکاۃ‘‘[2]انتھی [صدقہ وہ ہے جو انسان قرب الٰہی کے حصول کے لیے اپنے مال میں سے نکالتا ہے]
Flag Counter