Maktaba Wahhabi

174 - 702
دوم یہ کہ بعض صورتوں میں صورت تملیک اصلاً نہیں پائی جاتی ہے اور وہ محل مصرفِ زکات قرار دیا گیا۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے قولہ تعالی: { اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ} [التوبۃ: ۶۰] [ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرجائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور راہ رو مسافروں کے لیے] کے بارے میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے : ’’ویذکر عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما : یعتق من زکاۃ مالہ، یعطي في الحج، و قال الحسن: إن اشتری أباہ من الزکاۃ جاز، ویعطي في المجاھدین والذي لم یحج، ثم تلا: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ۔۔۔} الآیۃ‘‘[1] [ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے ذکر کرتے ہیں : بندہ اپنے زکات کے مال سے آزاد کر سکتا ہے۔ حج میں بھی دے سکتا ہے۔ حسن نے کہا ہے کہ اگر اس نے زکات کے مال سے اپنے والد کو خرید لیا تو جائز ہے اور مجاہدین کو دے سکتا ہے اور وہ جس نے حج نہیں کیا۔ پھر تلاوت فرمائی : {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ۔۔۔}] اور فتح الباری میں ہے: ’’وصلہ أبو عبید في کتاب الأموال من طریق حسان [بن] أبي الأشرس عن مجاھد عنہ أنہ کان لا یری بأسا أن یعطي الرجل من زکاۃ مالہ في الحج، وأن یعتق من الرقبۃ۔ أخرجہ عن أبي معاویۃ عن الأعمش عنہ، و أخرج عن أبي بکر بن عیاش عن الأعمش عن أبي نجیح عن مجاھد عن ابن عباس قال: أعتق من زکاۃ مالک۔ و تابع أبا معاویۃ عبدۃ بن سلیمان، رویناہ في فوائد یحییٰ بن معین روایۃ أبي بکر بن علي المروزي عنہ عن عبدۃ عن الأعمش عن [ابن] أبي الأشرس، ولفظہ:
Flag Counter