مصارف] (ش) وأن تصیر العاقبۃ لھم (م) [لا لإثبات الاستحقاق] (ش) لأن المجھول لا یصلح مستحقا، واللام للاختصاص لا للملک کما یقال: الجل للفرس، ولا ملک لہ، وکان المراد اختصاصھم بالصرف إلیھم، ومعاني اللام ترتقي إلی أکثر من عشرۃ، و لکن أصلھا للاختصاص، و لم یذکر الزمخشري في المفصل غیر الاختصاص لعمومہ، فقال: اللام للاختصاص، کقولک: المال لزید ، والسرج للدابۃ، واللام في الآیۃ للاختصاص، یعني أنھم مختصون بالزکاۃ، و لا تکون لغیرھم، کقولھم: الخلافۃ لقریش، والسقایۃ لبني ھاشم، أي لا یوجد ذلک في غیرھم، ولا یلزم أن تکون مملوکۃ لھم، فتکون اللام لبیان محل صرفھا، وأیضا الفقراء و المساکین لا یحصون لکثرتھم، فکانوا مجھولین، والتملیک من المجھول محال‘‘[1]
[ ہماری دلیل یہ ہے کہ صدقات کی اضافت ان کی جانب اس بات کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ وہ زکات وصول کرنے اور اسے استعمال کرنے کے حق دار ہیں اور مال کو بالآخر ان ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ استحقاق کو ثابت کرنے کے لیے نہیں ہے، کیونکہ مجہول مستحق نہیں ہوسکتا۔ اور لام اختصاص کے لیے ہے نہ کہ تملیک کے لیے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’الجل للفرس‘‘ یعنی جل گھوڑے کے لیے ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ ان پر صرف کرنے کی بنا پر اس سے مراد اس کا اختصاص ہوتا ہے۔ لام کے دس سے زیادہ معانی آتے ہیں ، لیکن اس کی اصل اختصاص ہے۔ ز مخشری نے ’’مفصل‘‘ میں اختصاص کی عمومیت کی بنا پر اختصاص کے علاوہ کوئی مفہوم ذکر نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ لام اختصاص کے لیے ہے، جیسے تمھارا یہ کہنا کہ مال زید کے لیے ہے اور زین جانور کے لیے ہے۔ آیت میں لام اختصاص کے لیے ہے۔ یعنی یہ لوگ زکات کے لیے مختص ہیں ، زکات ان کے علاوہ کے لیے نہیں ہوگی۔ جیسے ان کا قول ہے: خلافت قریش کے لیے خاص ہے اور پانی پلانا بنی ہاشم کے لیے مختص ہے۔ یعنی ان کے علاوہ میں یہ نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ چیزیں ان کی ملکیت ہو جائیں ۔ اس طرح
|