Maktaba Wahhabi

171 - 702
وصول کیا جائے گا۔ یہ اموال دفاع، پل اور تعمیرات، سڑکوں کی درستی، بڑی بڑی نہروں کو کرائے پر اٹھانا، جو کسی ایک کی ملکیت نہیں ہے، جیسے جیحون، فرات، دجلہ کی نہریں ، نیز یہ اموال قضات، ولات، محتسبین، معلمین اور مجاہدین کی تنخواہوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے دارالاسلام کے راستوں کو محفوظ رکھنے کے انتظامات پر صرف کیے جائیں گے۔ چوتھی قسم وہ اموال جو میت کے ترکے سے لیے جائیں گے، جس کا انتقال ہوگیا ہو اور اس کا کوئی وارث نہ ہو یا اس نے صرف شوہر یا بیوی چھوڑی ہو۔ تو اس کے مال کا مصرف اس کے علاقے کے فقرا، مریضوں پر خرچ کرنا اور ان کا علاج کرنا ہے اور ایسے مردوں کی تدفین کا انتظام کرانا ہے جو مال چھوڑ کر نہ مرے ہوں ، لقیط کا خرچہ، قتل کی دیت اور اس شخص کا خرچہ جو روزی کمانے سے عاجز ہو اور اس کا کوئی ایسا مددگار نہ ہو جو اس کے اخراجات کا بار اٹھاسکے اور اس سے ملتی جلتی صورتیں ۔ ان کا کلام ختم ہوا] لیکن یہ مسلک ائمہ احناف کا کہ ’’صدقہ میں تملیک رکن اعظم ہے‘‘ مضبوط و مدلل بالدلائل القویہ ثابت نہیں ہے، بچند وجوہ: اول: یہ کہ ائمہ احناف کے کلام میں خود تعارض ہے۔ ایک جگہ تو اثبات تملیک کرتے ہیں ۔ بایں عبارت کہ ’’إن اللّٰه تعالی سماھا صدقۃ، وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال للفقیر‘‘[1] [ یعنی اللہ نے اس کا نام صدقہ رکھا ہے اور صدقے کی حقیقت فقیر کو ما ل کا مالک بنا دینا ہے] ’’وقالوا: و لا یبنی بہا مسجد لا نعدام التملیک و ھو الرکن‘‘[2] [ اور انھوں نے کہا ہے کہ اس رقم سے مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی کیوں کہ وہاں تملیک پائی نہیں جاتی جو اہم ترین رکن ہے] اور دوسری جگہ ائمہ احناف نے تملیک کی نفی کی ہے۔اور قولہ تعالی: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ۔۔۔} [التوبۃ:۶۰] میں جو لام ہے، امام شافعی اس کولام تملیک کہتے ہیں ۔ اس کی ائمہ احناف تردید کرتے ہیں اور اس کولام اختصاص قرار دیتے ہیں ۔ عینی کی شرح ہدایہ میں ہے: ’’(م) [ ولنا أن الإضافۃ] (ش) أي إضافۃ الصدقات إلیھم (م) [لبیان أنھم
Flag Counter