الیتامی والمساکین وابن السبیل، والنوع الثالث: ھو الخراج و الجزیۃ، و ما صولح علیہ مع بني نجران من الحلل و مع بني تغلب من الصدقۃ المضاعفۃ، و ما أخذ العاشر من المستأمن من أھل الحرب، و ما أخذ من تجار أھل الذمۃ، تصرف ھذہ في عمارۃ الرباطات و القناطیر و الجسور و سد الثغور وکری الأنہار العظام التي لا ملک لأحد فیھا کجیحون و الفرات ودجلۃ، یصرف إلی أرزاق القضاۃ و أرزاق الولاۃ المحتسبین و المعلمین و المقاتلۃ و أرزاق المقاتلۃ، ویصرف إلی رصد الطریق في دار الإسلام عن اللصوص وقطاع الطریق، والنوع الرابع: ما أخذ من ترکۃ المیت الذي مات و لم یترک وارثا أو ترک زوجا أو زوجۃ، فمصرف ھذا نفقۃ المرضی في أدویتھم وعلاجھم، و ھم فقراء، وکفن الموتی الذین لا مال لھم، و نفقۃ اللقیط، و عقل جنایۃ، و نفقۃ من ھو عاجز عن الکسب، و لیس لہ من یقضي علیہ في نفقتہ وما أشبہ ذلک‘‘[1] انتھی کلامہ مختصرا
[ بیت المال میں چار طرح کے اموال جمع کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک قسم صدقات کی ہے۔ یہ چرنے والے جانوروں اور عشر کی زکات ہے، جو عشر جمع کرنے والے نے مسلمان تاجروں سے حاصل کیا ہے۔ دوسری قسم: غنائم، معادن اور دفینے کا خمس ہے۔ ان دونوں طرح کے اموال کو زکات کے ان آٹھ مستحقین پر خرچ کیا جائے گا، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ’’صدقات صرف فقرا کے لیے ہیں ۔۔۔۔‘‘ (التوبہ:۶۰) نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور جان لو کہ تم لوگوں نے مال غنیمت میں جو کوئی بھی چیزحاصل کی ہے۔۔۔۔‘‘ (الانفال: ۴۱) تو آج تین اصناف میں انھیں خرچ کیا جائے گا۔ یعنی یتامیٰ، مساکین اور مسافروں پر۔ تیسری قسم خراج اور جزیہ ہے اور بنی نجران سے جن چیزوں پر مصالحت ہوئی تھی اور بنی تغلب کے ساتھ جس دو گنا صدقے پر مصالحت ہوئی تھی اور جو کچھ غیر مسلم معاہدین سے اور ذمی تاجروں سے
|