یصرفہ في مصارف بیت المال بیعا وعطاء، واحتج بما ذکرہ الأزرقي أن عمر کان ینزع کسوۃ الکعبۃ کل سنۃ فیقسمھا علی الحجاج، وعند الأزرقي عن ابن عباس وعائشۃ رضی اللّٰه عنہما أنھما قالا: ولا بأس أن یلبس کسوتھا من صارت إلیہ من حائض وجنب و غیرھما ‘‘[1]انتھی
[ صاحبِ تلخیص نے کہا ہے کہ کعبہ شریف کے پردے اور غلاف کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی ابو الفضل بن عدلان نے کہا ہے کہ کعبہ کے پردے کو کاٹنا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کے کسی حصے کو مت کاٹا جائے اور نہ ہی اسے کہیں لے جانا، بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔ یہ جو عوام الناس بنو شیبہ سے اسے خریدتے ہیں ، ضروری ہے کہ اسے ممنوع قرار دیا جائے۔ رافعی نے بھی اس موقف میں ان کی موافقت کی ہے اور ابن الصلاح نے کہا ہے: اس کا معاملہ امام وقت کے سپرد کیا جائے، وہ بیت المال کے مصارف میں اس کی فروخت اور عطیے میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ انھوں نے ازرقی کے ذکر کردہ اس عمل سے دلیل لی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ہر سال کعبہ کا پردہ اور غلاف اتار کر حجاج کرام میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ازرقی کے ہاں ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا: کعبے کا غلاف ہر اس فرد کے لیے پہننے میں کوئی حرج نہیں ، جسے بھی وہ نصیب ہوجائے، خواہ وہ حائضہ عورت اور جنبی وغیرہ ہوں ]
جو لوگ کعبہ کے پردے کی خرید و فروخت کے قائل ہیں ، وہ اس کو تبرک کے لیے میت کے کفن کے لیے بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ دلیل یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں تبرک کے لیے کفن دیا جانا ثابت ہے۔ حافظ الحدیث حجۃ اللہ فی الارض امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں خود روایت فرمایا:
’’عن عبد اللّٰه بن عمر أن عبد اللّٰه بن أبي لما توفي جاء ابنہ إلی النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فقال: أعطني قمیصک أکفنہ فیہ، وصل علیہ، واستغفر لہ، فأعطاہ قمیصہ‘‘[2] رواہ البخاري۔
|