اسی طرح فوائد الفوائد میں بھی عدم جواز کی تصریح ہے۔ پس ہمارے مدعا یعنی پیشانی، سینے اور کفن پر لکھنے کے عدم جواز کے اثبات کے لیے ابن عابدین کا قول: ’’فالمنع ھھنا بالأولی مالم یثبت عن المجتھد أو ینقل فیہ حدیث ثابت‘‘ کافی ہے، اگرچہ ابن عابدین نے اس عبارت کو سیاہی سے کتابت کی صورت میں کہا ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ دین سے متعلق جو بھی عمل ہو، شرع سے اس کی اجازت ہونی چاہیے، ورنہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ بہ ظاہر وہ کتنا ہی اچھا عمل لگتا ہو، یہی اس مسئلے میں انتہائی تحقیق ہے اور اﷲ تعالیٰ ہی حقیقتِ حال کو سب سے بہتر جانتے ہیں ۔
صورت ثانیہ کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ روایات سے معلوم ہوگیا کہ کعبہ کے پردہ کا وجود خلفائے راشدین کے دور میں تھا اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں ’’باب کسوۃ الکعبۃ‘‘ کے تحت کہا:
’’قلت: لعل الکعبۃ کانت مکسوۃ وقت جلوس عمر، فحیث لم ینکرہ، و قررھا، دل علی جوازھا‘‘[1] انتھی
[میں کہتا ہوں : شاید عمر رضی اللہ عنہ کے تختِ خلافت پر بیٹھنے کے وقت کعبہ کو غلاف پہنایا گیا تو انھوں نے اس کا انکار نہیں کیا، بلکہ اسے برقرار رکھا تو ان کا ایسا کرنا اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے]
اسی طرح عینی کی آنے والی روایت سے معلوم ہوگا، مگر کعبے کے پردہ کا خریدنا، بیچنا، کاٹنا، لے جانا؛ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کے جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں ۔
چنانچہ علامہ بدر الدین عینی نے ’’عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں اس باب سے متعلق فرمایا ہے:
’’قال صاحب التلخیص: لا یجوز بیع أستار الکعبۃ المشرفۃ، وکذا قال أبو الفضل بن عدلان: لا یجوز قطع أستارھا، ولا قطع شيء من ذلک، ولا یجوز نقلہ وبیعہ ولا شراؤہ، وما یفعلہ العامۃ یشترونہ من بني شیبۃ لزمہ ردہ، ووافقہ علی ذلک الرافعي، وقال ابن الصلاح: الأمر فیہا إلی الإمام،
|