[ اور ابن الصلاح نے فتویٰ دیا ہے کہ میت کے کفن پر سورت یٰس، سورت کہف اور ان جیسی دیگر سورتیں لکھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ان کے میت کی پیپ وغیرہ میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے]
اور رد محتار میں یہ بھی ہے:
’’وقدمنا قبیل باب المیاہ عن الفتح أنہ تکرہ کتابۃ القرآن وأسماء اللّٰه تعالی علی الدراھم والمحاریب والجدران وما یفرش، وما ذاک إلا لاحترامہ وخشیۃ وطئہ ونحوہ، مما فیہ إھانتہ، فالمنع ھہنا بالأولی ما لم یثبت عن المجتہد أو ینقل فیہ حدیث ثابت‘‘[1] انتھی
[اور ہم نے باب المیاہ سے تھوڑا پہلے یہ ذکر کیا ہے کہ درہموں ، عمارتوں ، دیواروں اور بچھائی جانے والی چیزوں پر قرآنی آیات اور اﷲ تعالیٰ کے نام لکھنا مکروہ ہے، اس لیے کہ ان کے احترام کا یہی تقاضا ہے کہ انھیں اس طرح کی چیزوں اور جگہوں میں نہ لکھا جائے، کیونکہ خدشہ ہوتا ہے کہ انھیں روندھا جائے اور ایسا کرنے میں ان کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ لہٰذا کفن پر ان کو لکھنا بالاولیٰ منع ہے، کیونکہ ایسا کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی مجتہد سے منقول ہے]
اور طحطاوی نے در المختار کے حاشیہ میں کہا:
’’قولہ: کتب علی جبھتہ۔۔۔ الخ أخذ من ذلک جواز الکتابۃ ولو بالقرآن، ولم یعتبروا کون مآلہ إلی التنجس بما یسیل من المیت، وانظر ھذا مع کراھتھم الکتابۃ علی المراوح وجدر المساجد‘‘
[یہ قول: میت کی پیشانی پر کچھ لکھنا ۔۔۔ الخ اس سے لکھنے کے جواز کو لیا گیا ہے خواہ وہ قرآن ہی لکھا جائے۔ اور انھوں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے کہ ایسا کرنے سے میت سے نکلنے والی پیپ وغیرہ سے ان لکھی ہوئی آیاتِ قرآنیہ وغیرہ کے ملوث ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ پنکھوں اور مساجد کی دیواروں پر آیات وغیرہ لکھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ]
|