Maktaba Wahhabi

150 - 702
’’استدل بھذا علی أن الکافر قد ینفعہ العمل الصالح في الآخرۃ، وھو مردود بظاھر قولہ: {وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَائً مَنْثُوراً} لا سیما و الخبر مرسل، أرسلہ عروۃ، و لم یذکر من حدثہ بہ، وعلی تقدیر أن یکون موصولاً فلا یحتج بہ، إذ ھو رؤیا منام، لا یثبت بہ حکم شرعي‘‘[1] انتھی [ اس روایت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کو اس کا نیک عمل فائدہ دے گا، جبکہ یہ استدلال مندرجہ ذیل فرمانِ باری تعالیٰ کے ظاہری مفہوم کے ساتھ مردود ہے: {وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَائً مَنْثُوراً} خصوصاً جبکہ مذکورہ روایت مرسل ہے، جسے عروہ نے مرسل بیان کیا ہے اور انھوں نے یہ ذکر ہی نہیں کیا کہ انھیں یہ روایت کس نے بیان کی ہے۔ بالفرض یہ روایت موصول بھی ہو، پھر بھی اس سے مذکورہ استدلال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت محض ایک خواب ہے اور اس کے ساتھ شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا] اور مندرجہ بالا تشریحات میں ’’شرح منار النسفي‘‘ میں کہا ہے: ’’ولا اعتبار بإلھام غیر النبي ورؤیاہ‘‘ انتھی [غیر نبی کے الہام اور خواب کا کوئی اعتبار نہیں ہے] مذکورہ تمام افراد جو جواز کو نقل کرنے والے ہیں ، مثلاً ابراہیم حلبی و علاؤ الدین حصکفی و صاحب تاتار خانیہ و صاحب فوائد الشرجی و صاحب درہم الکیس وغیرہ رحمہم اللہ ، یہ سب فتاوی بزازیہ سے نقل کرتے ہیں ، جو خود محتاج دلیل ہے۔ جب کہ وہ ادلہ اربعہ سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ فلا یلتفت إلیہ۔ اور جزائے خیر ملے علامہ حافظ عثمان بن عبد الرحمن الشہیر بابن الصلاح کو ، کہ انھوں نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ ’’رد المحتار‘‘ میں ہے: ’’وقد أفتی ابن الصلاح بأنہ لا یجوز أن یکتب علی الکفن یٰسین والکھف ونحوھما، خوفا من صدید المیت‘‘[2] انتھی
Flag Counter