شیخ الاسلام جمال المسلمین علامہ شمس الدین کرمانی نے ’’کواکب الدراري شرح صحیح البخاري‘‘ میں حدیث: ’’قال عروۃ وثویبۃ مولاۃ لأبي لھب: کان أبو لھب أعتقھا، أرضعت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فلما مات أبو لھب، رآہ بعض أھلہ ۔۔۔ الخ‘‘ کے تحت فرمایا:
’’فإن قلت: فیہ دلیل علی أن الکافر ینفعہ العمل العمل، فقد قال اللّٰه تعالی: {فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء۔۔ الآیۃ} قلت: لا، إذ الرؤیا لیست بدلیل‘‘[1]انتھی
[اگر تم کہو کہ مذکورہ حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کافر کو اس کا (نیک) عمل فائدہ دیتا ہے، باوجود اس کے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء۔۔ الآیۃ} تو میں کہوں گا کہ نہیں اسے اس کا فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ (لوگوں کا) خواب دلیل نہیں بنتا ہے]
حجۃ الاسلام حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں کہا ہے:
’’و في الحدیث دلالۃ علی أن الکافر قد ینفعہ العمل الصالح في الآخرۃ، لکنہ مخالف لظاھر القرآن، قال اللّٰه تعالی: {وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَائً مَنْثُوراً} وأجیب أولا بأن الخبر مرسل، أرسلہ عروۃ، و لم یذکر من حدثہ؟ وعلی تقدیر أن یکون موصولاً فالذي في الخبر رؤیا منام فلا حجۃ فیہ‘‘[2] انتھی
[مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کافر کو آخرت میں نیک عمل کا فائدہ ہوگا، مگر یہ بات قرآن مجید کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَائً مَنْثُوراً} سب سے پہلے اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ خبر مرسل ہے جسے عروہ نے مرسل بیان کیا ہے اور انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ انھیں یہ خبر کس نے بیان کی ہے؟ اگر مذکورہ خبر کا موصول ہونا مان بھی لیا جائے تو اس خبر میں زیادہ سے زیادہ نیند میں ایک خواب دیکھنے کا ذکر ہے جو حجت نہیں ہے]
علامہ قسطلانی نے ’’إرشاد الساري‘‘ میں کہا ہے:
|