Maktaba Wahhabi

147 - 702
ذلک عن الصحابۃ والتابعین، کذا في المحیط‘‘[1] انتھی [سورت ’’قل یا أیھا الکفرون‘‘ سے لے کر آخر تک ایک ہی رکعت میں نہ پڑھے کیوں کہ یہ بدعت ہے اور صحابہ و تابعین سے ثابت نہیں ] صدقے کے اونٹوں پر قیاس کرکے لکھنا قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے، وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا جاتاہے، وہ تبرک اور نجا ت کے لیے لکھا جاتا ہے۔ پھر وہاں بے ادبی کا امکان نہیں اور یہاں پیپ وغیرہ میں ملوث ہونے کا یقین ہے۔ ابن عابدین نے ’’رد المحتار‘‘ میں کہا ہے: ’’والقیاس المذکور ممنوع بأن القصد ثم التمیز، وھھنا التبرک، فالأسماء المعظمۃ باقیۃ علی حالھا فلا یجوز تعرضھا للنجاسۃ‘‘[2]انتھی [ (اور اونٹوں پر قیاس کر کے لکھنے والا) مذکورہ قیاس ممنوع (قیاس مع الفارق) ہے، کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے اور یہاں جو لکھا جاتا ہے وہ تبرک کے لیے لکھا جاتا ہے۔ (پھر اونٹوں پر لکھنے سے بے ادبی کا امکان نہیں جبکہ یہاں ) اسماے معظمہ اپنی حالت پر لکھے ہوئے باقی رہتے ہیں ، لہٰذا ان کو نجاست سے ملوث ہونے کے لیے باقی چھوڑنا جائز نہیں ہے] پھر یہ بھی دیکھیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کانوں میں اذان کہتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی کی ابتدا تھی۔ اسی پر انتہا کو قیاس کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دفن کے وقت بھی اذان کہنا شروع کردیا تو اکثر فقہا نے اس اذان کو دین میں بدعت قرار دیا۔ چنانچہ ابن عابدین نے ’’رد المحتار‘‘ میں کہا ہے: ’’لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ھو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر في فتاویہ ببدعتہ، وقال: من ظن أنہ سنۃ، قیاسا علی ندبہما للمولود، إلحاقا لخاتمۃ الأمر بابتدائہ، فلم یصب‘‘[3] انتھی
Flag Counter