Maktaba Wahhabi

123 - 702
(( ألارجل یتصدق علی ھذا فیصلي معہ؟ )) [کوئی شخص ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟] اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہاں پر اقتدا متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی اور اس میں کلام نہیں ، گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ ألا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معہ‘‘ و ’’أیکم یتجرعلی ھذا؟‘‘ و ’’من یتجر علی ھذا فیصلي معہ؟‘‘ و’’ ألا رجل یقوم فیتصدق علی ھذا فیصلي معہ‘‘ [کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس کو صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟ تم میں کون ہے جو اس کے ساتھ تجارت کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟ کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو کھڑا ہو اور اس پر صد قہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟] عموم پر دلالت کرتا ہے، خواہ مقتدی متصدق و متجر متنفل ہو یا مفترض، اور اگرچہ اس واقعہ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہوا، مگر یہ خصوص مورد قادح عموم لفظ کا نہ ہوگا۔ اور اول دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک جو منجملہ رواۃ اس کے حدیث کے ہیں ، انھوں نے بھی یہی عموم سمجھا، چنانچہ انھوں نے بعد وفاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جماعت ثانیہ ساتھ اذان و اقامت کے قائم کی، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہو چکی تھی۔ صحیح بخاری کے باب فضل صلاۃ جماعہ میں ہے: ’’وجاء أنس إلی مسجد قد صلي فیہ فأذن وأقام و صلی جماعۃ‘‘[1] انتھی [ انس رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اور اس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انھوں نے اذان دی، اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔ختم شد] کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں : ’’وجاء أنس۔۔۔ الخ، وصلہ أبو یعلی في مسندہ من طریق الجعد أبي
Flag Counter