قال: اسی چھاپے کی صحیح بخاری کے حاشیہ پر بطور نسخہ اربع عشرۃ لکھا ہوا ہے۔ اقول : ہم نے اربع عشرۃ کے نسخہ کا انکار کب کیا ہے۔ جو آپ اس نسخہ کو نقل کر نے چلے۔ مقصود تو اربعا وعشرین کے نسخہ کا ثابت کرنا ہے، جس کا آپ نے انکار کیا تھا۔ پس ہم کو اربع عشرۃ کے نسخہ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتوں کے نقل کرنے کی ضرورت ؟ قال: اے میرے اللہ اہلحدیث ہونے کا دعویٰ اور دیانت کا یہ حال کہ اس کے بعد والی عبارت کو جو اس روایت کی تغلیط کر رہی ہے ،حضرت نے یک قلم نظر انداز کر دیا الی قولۃ تقربوا الصلوۃ کہا جائے واتنم سکارے چھوڑ دیا جائے۔ اقول: افسوس ہے آپ کی خوش فہمی پر اور آپ کی دیانت پر ، سنئے جب آپ ۲۴ والی روایت کا ویسا ہی صاف انکار کیا جیسا کہ یہود نے نزول وحی کا صاف انکار کیا تھا، آپ نے ان لفظوں میں انکار کیا ہے۔ ’’چوبیس روز قیام قبا کی نسبت کسی کتاب حدیث میں کوئی روایت ہرگز نہیں ہے۔‘‘ اور یہود کے انکار کو اللہ تعالیٰ نے ان لفظوں سے حکایت کیا ہے:{ما انزل اللہ علی بشر من شیء} تو ہم نے آپ کے اس ان کا ر کے ابطان میں حافظ ابن حجر کی اس عبارت کو پیش کیا۔ قولہ فاقام فیھم اربعا وعشرین کذا اللمستمٰی والحموی۔ اس عبارت سے آپ کے انکار کا ابطان آفتاب نیم روز کی طرح ظاہر ہے۔ رہی حافظ ابن حجر کی یہ عبارت وللباقین اربع عشرۃ الخ سو اولا: اس سے یہی ۲۴ والی روایت کا صحیح بخار میں موجود ہونا ثابت ہے۔ ثانیا: ہم کو اربع عشرۃ کے نسخہ سے انکار نہیں ۔پس ہم کو اس عبارت کے نقل کرنے کی کیا ضرورت؟ رہی یہ بات کہ صحیح بخاری کا اربعا وعشرین والا نسخہ صواب ہے۔ یا اربع عشرۃ والا۔ سو اس سے آپ کو کچھ تعلق ہی نہیں ہے،کیونکہ آپ کو تو اربعا وعشرین والی روایت سے بالکل انکار ہے۔ ثبت العرش ثم انقش کہئے۔ اب آپ کے فہم شریف میں بات آئی کہاں ہیں اہلِ علم احناف ذرا حضرت نیموی (جن کو محدث کامل الفن اور علامہ زمن ہونے کا دعویٰ ہے) کی اس خوش فہمی کو ملاحظہ فرمائیں۔اور پھر انصاف سے بتائیں کہ کیا ایسے مقام میں آیہ {لا تقریبوا الصلوۃ} پڑھی جاتی ہے کیا دیانت اور انصاف اسی کا نام ہے۔؟ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |