اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث غایت درجہ کی ضعیف ہے ۔جو قابلِ احتجاج نہیں ۔ اقول : موجبین جمعہ علی اہلِ القریٰ وغیرہم اس روایت کو احتجاجاً پیش نہیں کرتے ،بلکہ استشہاداً تائیداً۔ قال: (۳) اہلِ سیر نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا سے کوچ کیا۔ اور محلہ بنی سالم میں جو ایک قریہ ہے مابین قبا اور مدینہ کے وہاں کی مسجد عاتکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ ادا فرمائی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ بروز دو شنبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے قبا میں پہنچے ۔ اور بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہاں چودہ شب قیام کیا۔ پس کسی طرح جمعہ چودھواں روز نہیں ہوتا۔ اقول: اولا اگر آپ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے تو آپ کی پہلی دلیل واہی اور بے کار ہوئی جاتی ہے ۔کیونکہ پہلی دلیل کی بنیاد اسی روایت پر ہے کمامر۔ ثانیاً: بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ بضع عشرۃ لیلۃ یعنی دس رات سے کچھ اوپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا میں قیام کیا۔ اور بخاری کی ایک اور روایت میں ہے۔ بضع وعشرو ن لیلۃ یعنی قبا میںآپ نے چو بیس رات قیام کیا ۔پس اگر چودہ شب والی روایت سے بنی سالم میں جمعہ پڑھنے کی روایت کا ضعف ثابت ہوتا ہے۔ تو بخاری کی بضع عشرۃ والی روایت اور بخاری اربع وعشرون لیلۃ والی روایت سے تو بنی سالم میں جمعہ پڑھنے کی روایت کی تصدیق وتصحیح ہوتی ہے۔ بضع عشرۃ لیلۃ۔ والی روایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا میں گیارہ روز قیام کیا۔ اور بارھویں روز جمعہ کو قبا سے مدینہ کو روانہ ہوئے۔ اور اربع وعشرون لیلۃ والی روایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل چوبیس روز قبا میں ٹھہرے اور پچیسویں روز جمعہ کو قبا سے مدینہ کو روانہ ہوئے ۔ دیکھو بخاری کی ان دونوں روائیوں پر قبا سے روانگی کا روزہ جمعہ پڑتا ہے اور ایک روایت میں آیا ہے کہ قبا میں دوشنبہ کے روز پہنچے ۔ اور سہ شنبہ ، چہار شنبہ، پنج شنبہ تین روز قیام کر کے جمعہ کو روانہ ہوئے۔ اسی روایت کو اکثر اہلِ سیر نے اختیار کیا ہے اور |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |