اور تنہا بخاری کی متکلم فیہ روایات ۷۸ ہے۔[1] یوں تنہا مسلم کی متکلم فیہ روایات کی تعداد ۱۰۰ ہے، اسی طرح بخاری میں متکلم فیہ راوی ۸۰ ہیں، جب کہ مسلم میں ۱۶۰ ہیں۔[2]
باقی تفصیلات کے علاوہ متکلم فیہ احادیث و رجال کی تعداد میں یہ تفاوت بجائے خود صحیح بخاری کی ارحجیت کی بین برہان ہے، رہی دونوں میں یہ روایات تو ان کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کان جمھور ما أنکر علی البخاري مما صححہ یکون قولہ فیہ راجحاً علی قول من نازعہ، بخلاف مسلم بن الحجاج فانہ نوزع فیہ عدۃ أحادیث مما خرجھا وکان الصواب فیھا مع من نازعہ‘‘[3]
امام بخاری کی تصحیح میں سے جن پر اعتراض کیا گیا ہے، ان میں اعتراض کرنے والوں کی نسبت اکثر امام بخاری کا قول راجح ہے، برعکس امام مسلم بن الحجاج کے، ان سے متعدد احادیث میں اختلاف کیا گیا ہے، جن کی انھوں نے تخریج کی ہے اور ان میں صحیح رائے ان سے اختلاف کرنے والوں کی ہے، اس لیے حافط ابو علی النیشاپوری کا یہ قول بالکل درست نہیں، البتہ اس بات پر اہلِ علم کا اتفاق ہے صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم کا مرتبہ ہے، بلکہ شیخ الاسلام نے ہی فرمایا ہے:
’’ولا یبلغ تصحیح الواحد من ھؤلاء مبلغ تصحیح مسلم ولا یبلغ تصحیح مسلم مبلغ تصحیح البخاري‘‘[4]
|