شہادت پیش نہیں کر سکتے تھے۔
مولانا محمد عطاء اللہ نے چھان بین کے بعد یہ ثابت کر دیا ہے کہ ابن بطوطہ ۹ رمضان ۷۲۶ھ (۹ اگست ۱۳۲۶ء) کو جمعرات کے دن دمشق پہنچا تھا اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سے بائیس روز قبل ۱۶ شعبان ۷۲۶ھ (۱۸ جولائی ۱۳۲۶ء) کو قلعۂ دمشق میں محبوس ہو چکے تھے اور اسی قید میں ان کا انتقال ہوا۔ گویا نہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن بطوطہ کے دمشق پہنچنے کے وقت آزاد تھے۔ نہ وہ جامع مسجد میں خطبہ دے سکتے تھے، نہ ابن بطوطہ کے لیے ایسی کوئی بات خود امام کی زبان سے سننے کا موقعہ آیا جو بہ وثوق ان سے منسوب کر دی گئی۔ علاوہ بریں خود ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ جب وہ دمشق پہنچا تو جامع دمشق کے خطیب و امام قاضی القضاۃ جلال الدین قزوینی تھے اور سرکاری خطیب و امام کے ہوتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے لیے کوئی خطبہ دینا بہ حالتِ آزادی بھی خارج از بحث تھا، کیوں کہ وقت کا محکمۂ قضا اور خود قزوینی امام موصوف کے مخالفین میں سے تھے۔
بہرحال ابن بطوطہ کا یہ بیان بالکل بے بنیاد ہے، ممکن ہے سفر نامہ لکھواتے وقت اس کی یاد داشتوں میں بے ترتیبی پیدا ہو گئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دمشق میں اس کی ملاقاتیں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مخالفوں سے ہوتی رہی ہوں اور انھوں نے بظاہر اسی قسم کی بے سروپا باتیں ابن بطوطہ کو سنائی ہوں گی، جنھیں اس نے غیر شایاں وثوق کی بنا پر ذاتی مشاہدے کا رخ دے دیا ہو۔ غرض ابن بطوطہ کے دوسرے بیانات کتنے ہی مستند اور درخورِ قبول کیوں نہ ہوں، یہ بیان بداہتاً غلط ہے۔ کیوں کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابن بطوطہ کے دمشق پہنچنے سے پیشتر قید ہو چکے تھے۔ ان کے تمام رفیق و نیاز مند زیرِ عتاب تھے اور اس امر کے وقوع کا امکان ہی نہ تھا، جسے واقعیت کے لباس میں
|