بشیر احمد صاحب لدھیانوی کے ہاں سے ملا جو بڑے سائز کے اٹھارہ اوراق پر مشتمل ہے اور تاریخِ کتابت بھی اس پر مندرج نہیں۔ ایک ملاقات پر میں نے حضرت شاہ صاحب کی ’’البلاغ المبین‘‘ کا ذکر کیا کہ بعض حضرات اسے شاہ صاحب کی تصنیف قرار نہیں دیتے۔ اس پر انھوں نے یہی نسخہ نکال کر دکھایا، جس کے سرِورق پر شاہ صاحب کی تصانیف مثلاً حجۃ اللہ، مصفی، مسوی وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہوا تھا ’’البلاغ المبین أیضاً لہ‘‘ حضرت مولانا نے کتاب کی تصدیر میں یہ عبارت نقل کی ہے اور اس سلسلے میں مزید وضاحت بھی کر دی ہے جو قابلِ مراجعت ہے۔
دوسرا نسخہ حضرت مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی جے پوری حال کراچی سے ملا، جو جمادی الاولیٰ ۱۳۰۴ھ بمطابق نومبر ۱۸۹۸ء کا مکتوبہ ہے اور دو سو اوراق پر مشتمل ہے، جس میں کتاب کے تینوں حصے آگئے ہیں۔ یہ نسخہ گو بظاہر مکمل ہے، مگر درمیان سے ناقص ہے، جس کی پوری وضاحت حضرت مولانا نے افتتاحیہ (ص: ۸) اور (ص: ۹۶) کے حواشی میں کر دی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’مزید پریشانی یہ ہوئی کہ اس کے درمیان میں بھی نقص نکل آیا یعنی حصہ حدیث کے آخر صفحات میں ’’النوادر‘‘ عنوان کے تحت حسبِ تصریح مؤلف کتاب ہونا یہ چاہیے تھا کہ روایتیں چالیس ہوں جب کہ موجودہ ہمارے نسخہ میں صرف بارہ ہیں ملاحظہ ہو۔ (ص: ۹۲،۹۳) (ص: ۸)
مگر یہاں ایک بات مزید قابلِ غور ہے کہ حضرت مولانا مرحوم ’’النوادر‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’وأعلم ان المؤلف ألف في ھذا الموضوع رسالتین أیضاً إحداھما في مبشراتہ المسماۃ بالدر الثمین في مبشرات النبي الأمین ذکر فیھا
|