Maktaba Wahhabi

178 - 391
حضرت پیر صاحب پر سراسیمگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی کچھ بول نہ سکے، مگر حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب نے بڑے غضب ناک لہجے میں فرمایا: حاجی صاحب! اللہ تعالیٰ سے ڈریں یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ حاجی صاحب کہنے لگے: مولانا صاحب کیا کریں، ہمیں جہاں ضرورت ہوتی ہے شہر میں ہو یا گوٹھ میں، پبلک جلسہ میں ہو یا کسی مکالمہ و مناظرہ میں، وکلا اور ججوں میں ہو یا پریس میں، جہاں کہیں بھی ضرورت ہوتی ہے ہم شاہ صاحب کو لے جاتے ہیں۔ شاہ صاحب سعودی عرب چلے جائیں گے تو ہمیں ضرورت پڑے گی تو حسرت سے کہیں گے: شاہ صاحب ہوتے تو انھیں لے جاتے اب ہم کس کو لے جائیں۔ وہ فوت ہو جائیں، سبھی نے جانا ہے فوت ہونے پر یہ حسرت تو نہیں ہو گی اور ہم منہ اٹھا کر سعودیہ کی طرف تو نہیں دیکھیں گے؟ اس واقعہ سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ان کی خدمات کا احبابِ سندھ کے ہاں کیا تاثر تھا۔ حضرت شاہ صاحب کے سعودیہ جانے کی بات آئی ہے تو یہ بھی دیکھیے کہ سعودیہ جانے سے پہلے حضرت موصوف دوست و احباب سے الوداعی طور پر ملنے کے لیے پنجاب تشریف لائے تو ہمارے ہاں ادارۃ العلوم الاثریہ کو بھی انھوں نے یہ شرف بخشا۔ صبح کے ناشتے کا اہتمام حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ ناظم ادارۃ العلوم الاثریہ نے اپنے گھر پیپلز کالونی میں کیا۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ (نور اللہ مرقدہ) کے علاوہ چند اور احباب بھی تھے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو حضرت شاہ صاحب کے سعودیہ جانے کے بارے میں بات چل نکلی۔ وہ نقشہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت مولانا چیمہ مرحوم نے دست بستہ حضرت شاہ صاحب سے عرض کی کہ اللہ کے لیے آپ سعودیہ نہ جائیں، سعودیہ کی فضا آپ کو راس نہیں آئے گی۔ کہیں ایسا نہ
Flag Counter