Maktaba Wahhabi

177 - 391
حضرت مرحوم نے خطبۂ مسنونہ کے بعد ﴿ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً ﴾ [النحل: ۱۱۲] تلاوت فرمائی اور اس کے حوالے سے ایسی دلدوز گفتگو کی کہ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ تمام حضرات مبہوت تھے اور اللہ اکبر، اللہ اکبر کہہ کر حضرت شاہ صاحب کے بیان پر سردھن رہے تھے۔ سبھی حضرات کو معلوم ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی مادری زبان سندھی تھی، مگر تقریر و تحریر میں اردو، سندھی، فارسی و عربی چاروں زبانوں میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی قدرت بخشی تھی اور ہر طبقہ خیال میں موقعہ محل کے مطابق دلنواز طریقے سے گفتگو کرنے کا سلیقہ عطا فرمایا تھا۔ ان کی اس خوبی کے بارے میں ایک دوسرے انداز کا تاثر آپ دیکھیں کہ جن دنوں حضرت شاہ صاحب پاکستان سے منتقل ہو کر سعودی عرب، مکہ مکرمہ میں جانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ انہی ایام میں راقم اپنے شیخ محترم حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب محدث فیصل آبادی کے ہمراہ حضرت شاہ صاحب اور ان کے برادرِ کبیر حضرت مولانا سید محب اللہ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت شاہ صاحب سے تو ملاقات نہ ہو سکی، ہم آگے حضرت مولانا پیر محب اللہ (نور اللہ مرقدہ) کی خدمت میں پہنچے۔ اتفاقاً وہاں نواب شاہ سے جناب حاجی نور محمد صاحب بھی آئے چائے پینے کے بعد انھوں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں حضرت پیر صاحب سے کہا: پیر صاحب آپ حضرت بدیع الدین شاہ صاحب کو حکماً روک دیں کہ وہ سعودی عرب نہ جائیں۔ پیر صاحب نے فرمایا: بھائی میں کیسے روک سکتا ہوں۔ انھوں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جانے کی تیاری میں ہیں۔ حاجی نور محمد مرحوم کہنے لگے کہ ٹھیک کہ اگر آپ روک نہیں سکتے تو آپ شاہ صاحب کے خون کے وارث نہ بنیں میں انھیں فائر مار دینا چاہتا ہوں۔ اللہ اکبر یہ بات سن کر
Flag Counter