سے واقف نہیں ہوں‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ کیوں یہ یقین تھا کہ میں نے صحیح پڑھا ہے، چنانچہ میں نے بڑے زعم کے ساتھ جواب دیا: ’’أما أنا فلا أعرف عَرَفَ‘‘ ’’اور یہ خاکسار آپ کے عَرَفَ سے واقف نہیں ہے‘‘ اس گستاخانہ فقرہ پر کوئی اور ہوتا تو غالباً آپے سے باہر ہو جاتا، لیکن مولانا نے اگر کہا تو یہ کہا کہ ’’فراجع اللغۃ‘‘ ’’اگر تمھیں اس قدر اصرار ہے تو لغت دیکھ لو‘‘ سامنے قاموس پڑی ہوئی تھی، میں نے بڑے غرہ کے ساتھ اس کی متعلقہ جلد گھسیٹی اور ’’عَرَف‘‘ کا پورا کالم پڑھ ڈالا، لیکن ’’عرف باب سَمِعَ‘‘ سے اپنے معروف معنی میں میرے ذہن کے سوا اور کہیں وجود رکھتا ہو، تب تو ملے۔ مولانا نے تاڑ لیا کہ مجھے اپنے خیال میں سخت ناکامی ہوئی ہے اور قدرتی طور پر اس کا ردِ عمل بھی مجھ پر ایک سخت قسم کی کھسیاہٹ کی شکل میں ہو گا، لیکن ان کی شفقت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ میری گستاخی کا مجھ سے انتقام لیں اور مجھے شرمندہ ہونے کے لیے چھوڑ دیں، فوراً میری تسلی کے لیے عربی میں فرمایا: ’’کوئی بات نہیں اصیل گھوڑا بھی ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے‘‘ اس کے بعد میں نے کان پکڑے کہ اب میں کبھی مولانا کے سامنے اپنی عربی دانی کے زعم میں اس قسم کا کوئی فقرہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔
متن حدیث کی حفاظت کا بحیثیت ایک شیخ حدیث کے مولانا کو جو اہتمام تھا، اس کا اندازہ بھی ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے:
’’ایک مرتبہ میں نے قراء ت کرتے ہوئے ایک حدیث کی عبارت ایک خاص تالیف کے ساتھ پڑھی، مولانا نے اس پر ٹوکا اور ایک دوسرے نہج
|