Maktaba Wahhabi

424 - 462
دیتے۔ بہت کم حضرات کو علم ہے کہ دار الاحسان اور پھر دالو وال کے جناب صوفی برکت علی صاحب نے ’’ترتیب شریف‘‘ اور ’’اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کا جو مجموعہ شائع کیا اس کا خاکہ بنانے والے پھر اس میں رنگ بھرنے والے ہمارے مولانا مرحوم ہی تھے۔ محترم صوفی صاحب کو ان سے خاص انس تھا اور وہ آپ کے بڑے قدر دان تھے۔ مولانا جب بھی ان کے ہاں تشریف لے جاتے وہ بڑے تپاک سے ملتے۔ نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ ہی کی اقتدا میں نماز پڑھتے اور واپسی دور تک الوداع کرنے کے لیے نکلتے۔ مولانا کی اہلیہ اور فرزندوں کا انتقال ہوا تو جناب صوفی صاحب تعزیت کے لیے مولانا کے ہاں تشریف لائے اور دیر تک آپ کے پاس بیٹھے رہے۔ مولانا بڑے وسیع الظرف اور اپنے پہلو میں کشادہ دل رکھتے تھے۔ اہلِ حدیث ہی نہیں، بلکہ اہلِ حدیث گر تھے، مگر دوسرے مسلک کے اکابر و علما کا برابر احترام کرتے۔ مولانا انور کلیم صاحب جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ نے ’’بریلوی مذہب اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، وہ مولانا کی خدمت میں کتاب لے کر گئے۔ کتاب پیش کی تو فرمایا: یہ آپ نے کیا لکھ مارا ہے۔ انھیں دراصل کتاب اور اس کے موضوع سے نہیں، بلکہ اس کے نام سے اختلاف تھا۔ وہ دلائل سے اختلاف کرنے کے قائل تھے، لٹھ مارنے کے نہیں۔ مسجد کریمیہ اہلِ حدیث کی تعمیر مکمل ہوئی۔ تو اس کے سامنے کی دیوار پر بعض احادیث لکھوائیں۔ مثلاً: (( لا صلاۃ إلا بفاتحۃ الکتاب ))، (( إذا أمن الإمام فأمنوا ))، (( رفع الیدین من زینۃ الصلاۃ ))، (( وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ ))۔ ایک بار مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکا خیل آپ سے ملنے کے لیے مسجد کریمیہ میں تشریف لائے تو احناف اور اہلِ حدیث کے مابین اختلافی مسائل پر مبنی
Flag Counter