غزنوی رحمہ اللہ کی آمد میں تاخیر محسوس کر کے مولانا ابو بکر نے مجھے نماز پڑھانے کا کہا۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھائی۔ نماز کے دوران میں حضرت غزنوی رحمہ اللہ بھی تشریف لے آئے۔ نماز سے فراغت کے بعد مولانا ابو بکر رحمہ اللہ سے فرمایا: یہ نماز پڑھانے والے کون ہیں؟ تو انھوں نے جواباً عرض کی کہ یہ میرے دوست ہیں۔ حضرت غزنوی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس عمدگی سے قرآن مجید پڑھنے والے آپ کے دوست ہیں تو یہ آج سے میرے بھی دوست ہیں۔
گولڑہ شریف کے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب سے ایک زمانہ واقف ہے، حضرت مولانا مرحوم حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے تو بحری جہاز میں ایک مرتبہ پیر صاحب کے فرزند اور جانشین پیر غلام محی الدین، جنھیں عقیدت مند محبت سے باؤ جی کہتے تھے، کو حضرت مولانا کے پیچھے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے پیچھے نماز کیا پڑھی، نقد دل ہی ہار بیٹھے۔ مولانا مرحوم سے تعارف ہوا تو انھوں نے فرمایا: آج سے میرے آپ مہمان ہیں اور سفر میں میری نمازوں کے امام ہیں۔ چنانچہ مکۂ مکرمہ اور منیٰ وغیرہ کے قیام کے دوران میں مولانا ان کے مہمان اور امام بنے رہے اور انھوں نے اپنے باورچی کو ہدایت کر دی کہ کھانا مولانا کی پسند کے مطابق تیار کیا کریں۔
حضرت مولانا صحیح معنوں میں عالمِ ربانی تھے۔ باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ ادارے کی میٹنگ ہو یا کوئی بھی اہم اجلاس نماز کا وقت ہوتا تو مولانا بلا حجاب چپکے سے نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ مرحوم مولانا محمد اسحاق چیمہ صاحب بسا اوقات اجلاس کی اہمیت کی بنا پر کہہ دیتے کہ جماعت میں تاخیر کر لیں گے تو وہ اسے ناپسند کرتے اور فرماتے نماز سب کاموں سے مقدم ہے۔ اسی طرح شب خیزی بھی ان کی ہمیشہ سے عادت تھی۔ سفر ہو کہ حضر، رات کے جس حصے میں بھی
|