کہ بہت بڑی دولت ہاتھ آگئی ہے، اسی تاثر میں یہ کہتا ہوا وہاں سے لوٹتا کہ ع
نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ ام
ایک بار یوں بھی ہوا کہ اطمینان و سکون جاتا رہا، نہ نماز میں سکون، نہ ذکر و تسبیح پر توجہ، اور نہ مطالعہ میں دلچسپی۔ میں نے اپنی اس کیفیت کا اظہار فوراً خط کے ذریعے سے آپ سے کر دیا اور عرض کی حضرت:
اگر باشد نصیبِ من عطا کن
تو ایں دردِ مرا بارے دوا کن
حضرت نے فوراً اس کا جواب مرحمت فرمایا اور چند اوراد و و ظائف کی تلقین فرما دی، جس کی پابندی سے چند ہی ایام میں یہ کیفیت ختم ہو گئی۔ والحمد لله ثم الحمد لله علیٰ ذلک
مناسب سمجھتا ہوں کہ یہاں اس خط کو من و عن نقل کر دوں، شاید وادیٔ احسان کے کسی مسافر کو اس سے راہنمائی حاصل ہو سکے اور وہ مبارک خط بھی دست برد زمانہ سے محفوظ ہو جائے۔ جسے آج تک میں نے حرزِ جاں بنائے رکھا ہے:
’’عزیز محترم السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
ذکر اللہ اور نمازِ تہجد یہ دو چیزیں ایسی ہیں، جن پر مداومت کرنے سے ان شاء اللہ مقصد حاصل ہو گا۔ تہجد کا تو آپ کو علم ہے ذکر سے بھی اگرچہ آپ واقف ہیں، مگر برائے تنبیہ کچھ عرض کرتا ہوں۔
صبح کی نماز کے بعد سو بار درود ’’صلی اللّٰه علیٰ حبیبہ محمد وآلہ وبارک وسلم‘‘ پڑھیں اس کے بعد پانچ صد مرتبہ ’’بسم اللّٰه الرحمان الرحیم‘‘ اس کے بعد درود مذکور سو بار پڑھ لیا کریں۔
|