یقوم الدلیل علی خلافہ فاعلمہ ولا تعجل‘‘[1]
اس عبارت سے قارئین یقینا حضرت الشیخ کے مواخذہ میں وزن محسوس کریں گے کہ ایک طرف تو مقدمہ (ص: ۵۲) میں کشمیری صاحب ترجیح کو تطبیق سے مقدم قرار دیتے ہیں، مگر دوسری طرف شخصِ واحد کے قول میں اختلاف کی صورت میں تطبیق کو ترجیح سے مقدم جانتے ہیں اور اسے اولیت دیتے ہیں۔
قصۂ مختصر کہ بخاری شریف کے درس سے پہلے تمہید کے طور پر کئی دن تک اصولی اور کلامی مباحث پر مشتمل تقریر فرماتے۔ بخاری شریف کے درس میں ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق، حدیث سے متعلقہ فقہی مسائل کی وضاحت اور اختلافی مسائل پر تبصرہ، مشکل الفاظ کی توضیح و تشریح پر اکتفا نہ فرماتے، بلکہ محدثین کرام کے طریقے کے مطابق سند کے راویوں کا تعارف اور ان کا مختصر تذکرہ بھی فرماتے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث کے سلسلے میں ’’حدثنا الحمیدي‘‘ کے تحت فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث اپنے مشہور استاد امام عبداللہ بن الزبیر الحمیدی القرشی المکی سے لی ہے، جو امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد اور قرشی النسب ہیں۔ امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی مرویات کو ’’المسند‘‘ کی ترتیب پر جمع کیا ہے جو دو جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ سے پہلے حدیث ذکر کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ وحی کا آغاز چونکہ مکہ مکرمہ میں ہوا تھا۔ اسی لیے انھوں نے پہلے اپنے مکی شیخ کی حدیث نقل کی ہے، پھر چونکہ امام حمیدی قریشی ہیں۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’قدموا قریشاً‘‘ کے مطابق ان کی حدیث کو سب سے پہلے ذکر کیا ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ چونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، اس لیے استاد کی طرف فقہ اہل الرائے
|