یہ امور اس بات کے غماز ہیں کہ فنِ رجال سے مولانا ڈیانوی کو گہرا لگاؤ تھا۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے جامع ترمذی طبع ہند کے دوسرے صفحے پر ’’حدثنا‘‘ محمد بن حمید بن اسماعیل کے بجائے محمد بن اسماعیل سے اس کی تصحیح کروائی۔ (اہلِ حدیث)
مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ (۱/۱۶) میں ’’قال بعضھم‘‘ کہہ کر جو اس تصحیف کی تصویب فرمائی ہے تو اس سے مراد غالباً مولانا ڈیانوی ہی ہیں۔ اس فن میں ان کی وسعتِ معلومات ہی کا نتیجہ تھا وہ بسا اوقات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جیسے ناقدِ رجال اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ جیسے جامع العلوم پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں، مثلاً امام ابو داود اپنی سنن میں ’’باب السواک من الفطرۃ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں۔
’’وفي حدیث محمد بن عبد اللّٰه بن أبي مریم عن أبي سلمۃ‘‘
محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے پہلے محمد مذکور کی توثیق اور اس کی روایت کی نشاندہی کی ہے اس کے بعد فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’إسعاف المبطأ‘‘ کے نام سے رجالِ موطا پر مستقل کتاب لکھی ہے، جس میں اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب اور تقریب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’والعجب من الشیخ جلال الدین السیوطي أنہ لم یذکر ترجمتہ في إسعاف المبطأ برجال الموطأ ثم العجب من الحافظ ابن حجر وغیرہ من النقاد أنہ کیف لم یذکرہ في التھذیب ولا في التقریب مع کونہ من رجال الموطأ ومع
|