’’لم یرفعہ غیر إسحاق الأزرق من شریک عن محمد بن عبد الرحمٰن ھو ابن أبي لیلیٰ ثقۃ في حفظ شیء‘‘
پھر اس کے بعد بواسطہ وکیع عن ابن ابی لیلیٰ اسی روایت کو موقوف ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسے مرفوع ذکر کرنے میں اسحاق یا شریک نے غلطی کی ہے اور ابن ابی لیلیٰ نے جو اسے موقوف ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے اور وہ ثقہ ہیں، البتہ حافظہ میں خرابی تھی۔ ان کے اس طریق کی شہادت اس سے بھی ملتی ہے کہ اسی روایت کو امام شافعی نے ابن عیینہ سے بواسطہ عمرو بن دینار اور ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس موقوف ذکر کیا ہے۔
لہٰذا ابن ابی لیلیٰ ہی اس روایت کو موقوف ذکر نہیں کرتے، بلکہ ان کی متابعت دیگر اصحاب نے بھی کی ہے اور اسے مرفوع ذکر کرنے میں اسحاق یا شریک ہی نے غلطی کی ہے، لیکن (ص: ۸۹) پر چونکہ ابن ابی لیلیٰ نے امام سفیان اور شعبہ کی مخالفت کی ہے، کیوں کہ یہ دونوں عبدالرحمان سے ’’أذن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم شفعاً شفعاً‘‘ کے الفاظ مرسلا ذکر کرتے ہیں، لیکن ابن ابی لیلیٰ ہی اسے متصل ذکر کرتے ہیں، لہٰذا جب اس نے سفیان اور شعبہ (جو ’’جبل من جبال الحفظ‘‘ کے ساتھ ملقب ہیں) کی مخالفت کی تو ان کے مقابلے میں قاعدہ نمبر 1. کی بنا پر ضعیف ٹھہرے۔ بعینہٖ (ص: ۲۷۳) پر جو اسے ’’ردیٔ الحفظ کثیر الوہم‘‘ کہا ہے تو اس کی وجہ بھی ثقات کی مخالفت ہے، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ’’طواف واحد‘‘ ہی کا ذکر کیا ہے، لیکن ابن ابی لیلیٰ نے ’’فطاف طوافا واحداً وسعی لھا سعیین‘‘ کا اضافہ بھی کیا ہے۔
بنابریں ثقات کے مقابلے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ردیٔ الحفظ قرار دیا
|