ہم چند امثلہ ہی ذکر کرنے پر کفایت کریں گے۔
1. ابو غطفان المری۔ یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں، اور صحیح مسلم میں ان سے تین راوی روایت کرتے ہیں جیسا کہ الجمع بین رجال الصحیحین (۲/۵۹۹) اور التہذیب للمزي میں ہے۔ مگر امام دارقطنی نے انھیں مجہول کہا ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ذکر کیا ہے، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو یہاں انتہائی تعجب کا اظہار ان الفاظ سے کیا ہے:
’’ویبعد ھذا الظاھر أن مثل الدارقطني لا یخفی علیہ حال المرّی وقد جزم بأن ھذا مجھول‘‘
یعنی کس قدر بعید بات ہے کہ امام دارقطنی جیسی شخصیت پر ’’ابو غطفان المری‘‘ (جیسے مشہور راوی) کا حال پوشیدہ نہ ہونے پر بھی وہ اسے بالجزم مجہول کہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ تعجب بلاشبہ صحیح ہے، کیوں کہ ابو غطفان صحیح مسلم کے راوی ہیں اور اس پر انھوں نے استدراک بھی کیا ہے۔ پھر امام ابن معین رحمہ اللہ اور نسائی رحمہ اللہ جیسے کبار محدثین نے اسے ثقہ بھی کہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے مجہول کہا ہے۔ تو اب ابو غطفان جیسے معروف راوی کو مجہول کہنے کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں:
۱۔ یا تو انھیں متقدمین میں سے ابو غطفان کی توثیق کا علم نہیں ہوا اور صرف صحیح مسلم کا راوی ہونے پر اس کی توثیق کو تسلیم بھی نہیں کیا۔
۲۔ یا پھر اس سے دو راوی روایت کرنے والے انھیں میسر نہیں آئے۔
لیکن ظاہر ہے کہ دوسرا احتمال صحیح نہیں، کیوں کہ ابو غطفان سے روایت کرنے والے متعدد ہیں۔ سنن دارقطنی (ص: ۱۵۹) اور ابو داود میں اس کا شاگرد عتبہ
|