وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لاَ یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ ، وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ) ’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے۔ایک یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو۔دوسری یہ کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو۔اور تیسری یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ اسے جہنم میں ڈالا جانا ناپسند ہے۔‘‘ [1] چھٹی شرط:انقیاد انقیاد ‘ خضوع ‘ تابعداری اور سر تسلیم خم کردینے کو کہتے ہیں۔اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ لا إلہ إلا اللّٰه اور اس کے تقاضوں کا ظاہری وباطنی طور پر تابع ہوجائے۔اور یہ اس وقت ہوگا جب انسان اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض پر عمل پیرا ہو اور اسکی حرام کردہ چیزوں کو ترک کردے۔ارشادِ ربانی ہے:﴿ وَأَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وََأَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے۔‘‘[2] اور الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جلدی رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:(وَأَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ)یعنی تم اپنے دلوں کے ساتھ اور اسی طرح(وََأَسْلِمُوْا لَہٗ)یعنی اپنے اعضاء کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرو۔اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ جب صرف انابت کا حکم دیا جائے تو اس میں دل اور اعضاء کے تمام اعمال شامل ہوتے ہیں۔اور جب انابت کے ساتھ اسلام(وََأَسْلِمُوْا لَہٗ)کا حکم بھی ہو تو انابت سے مراد دل کے ساتھ ، اور اسلام سے مراد اعضاء کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ ساتویں شرط:قبول قبول کا مطلب ہے:کسی چیز کو دل کی خوشی سے لے لینا۔اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ کلمہ توحید اور اسکے تقاضوں کو بسرو چشم قبول کرلینا اوران میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرنا۔اور اس کے مقصود ومراد پر عمل پیرا ہونے کو خود پرجبر یا زبردستی نہ سمجھنا بلکہ بتسلیم ورضا قبول کرنا۔ارشاد ربانی ہے: |