Maktaba Wahhabi

91 - 492
پانچویں شرط:محبت محبت سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو کلمۂ توحید اور اس کے تقاضوں سے محبت اور الفت ہو اور اس کے دل میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز سے حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہو۔اسی طرح اسے ان مؤمنوں سے بھی محبت ہو جو لا إلہ إلا اﷲ پر کار بند اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں۔اور ان لوگوں سے دل میں نفرت ہو جو اسکے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ اس کلمہ سے سچی محبت دو امور سے ثابت ہوتی ہے: (۱)تمام عبادات کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنے سے جو کہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ (۲)شرک سے اپنا دامن پاک رکھنے سے۔یہی دو امور دین کی بنیاد ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ﴾ ’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنا کر ان سے بھی ویسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اﷲ تعالیٰ سے ہونی چاہئے۔ جبکہ ایمان والے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اپنی قدرت کی نشانیوں اور اپنی نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ذکر کی ہے۔اس سے مقصود یہ ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے ، ان کے دلوں میں اسی اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہونی چاہئے تھی، لیکن اس کے برعکس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لئے اور ان سے ایسی محبت کی جو کہ اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے تھی۔ جبکہ ایمان والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ اس آیت ِ کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ شرکِ محبت حرام ہے اور وہ شرک اکبر کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔اور شرکِ محبت سے مراد ہے مشرکوں کی اپنے شریکوں سے اس طرح محبت کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الْإِیْمَانِ:أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ،
Flag Counter