﴿ وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَائَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَّإِنَّا عَلٰی آثَارِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ ٭ قَالَ أَوَ لَوْ جِئْتُکُمْ بِأَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ آبَائَ کُمْ قَالُوْا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرْوْنَ ٭ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ’’ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا(نبی)بھیجا تو اس میں عیش پرست لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کوایک طریقے پر چلتے دیکھا ہے اور ہم بھی یقینا انہی کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں گے۔پیغمبر نے کہا:اگر میں تمہارے پاس ایسا دین لے آؤں جو تمہارے باپ دادا کے طریقے سے زیادہ صحیح ہو(تو تم تب بھی اسی طریقے سے چمٹے رہو گے ؟)انھوں نے کہا:ہم اس دین کا قطعی انکار کرتے ہیں جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے۔پس ہم نے ان سے انتقام لے لیا۔تو آپ دیکھ لیجئے کہ(اللہ اور رسول کو)جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ! ‘‘[1] ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ قریش اور ان کے ہمنواؤں نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اس دین ِ حق سے اعراض کر لیا جو آپ لے کر آئے ہیں تو یہ در اصل سابقہ امتوں کے طرز عمل سے ملتا جلتا ہے جو انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اختیار کیا تھا۔اور اس طرز ِ عمل پر جس چیزنے ان تمام لوگوں کو آمادہ کیا وہ تھی اپنے آباء و اجداد کی تقلید۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّھُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ وَیَقُوْلُوْنَ أَإِنَّنَا لَتَارِکُوْا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ٭ بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ ﴾ ’’بلاشبہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ تکبر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اس شاعر اور دیوانے کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ حالانکہ(ہمارا نبی)حق لیکر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی۔‘‘[2] الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ جب مشرکین کو دعوت دی جاتی کہ تم کلمہ طیبہ کا اقرار کرو اور اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب معبودان باطلہ کی الوہیت کا انکار کردو تو وہ کلمہ توحید پر اور اس کے لانے والے نبی پر اپنی بڑائی کا اظہار کرتے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباء و اجداد اور ہم پوجا کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں ؟ دیوانے شاعر سے ان کی مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ! اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے |