اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لاَ یَلْقَی اللّٰہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْہِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃ) ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں(محمد صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کا رسول ہوں۔یہ دو گواہیاں ایسی ہیں کہ جو بندہ ان گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملتا ہے کہ اسے ان کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘[1] ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:(لاَ یَلْقَی اللّٰہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْہِمَا فَیُحْجَبُ عَنِ الْجَنَّۃِ) ’’ جو بندہ بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اسے ان میں کوئی شک نہیں تھا تو اسے جنت میں داخل ہو نے سے کوئی چیز روک نہیں سکے گی۔‘‘ تیسری شرط:اخلاص یعنی لا إلہ إلا اﷲ کا پڑھنے والا جس طرح اﷲتعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرتا ہے اسی طرح غیر اﷲ سے براء ت کا اظہار بھی کرے۔اسی لئے اس کلمۂ طیبہ کو کلمۂ اخلاص بھی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اخلاص کا معنی ہے:پاک صاف کرنا۔اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾ ’’انہیں محض اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں۔اور(شرک وغیرہ سے)منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ ‘‘[2] چوتھی شرط:صدق صدق کذب کی ضد ہے یعنی کلمہ گو صرف زبانی اقرار پر اکتفا نہ کرے بلکہ صدقِ دل سے اس کا اقرار کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ ٭ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ |