اس آیت میں(الحق)سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہے۔اور مفہوم یہ ہے کہ مستحقِ شفاعت صرف وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اس کلمہ کی گواہی دی اور گواہی بھی علم وبصیرت کی بنیاد پر دی اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔[1] الشیخ عبد الرحمن بن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ یعنی جس شخص نے زبان سے گواہی دی ، دل سے اقرار کیا اور اس کے معنی ومفہوم کا علم حاصل کیا ، وہ شفاعت کا مستحق ہو گا۔اور(الحق)سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شریعت ہے۔‘‘[2] اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَنْ مَّاتَ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) ’’ جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ اسے یقین تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘[3] دوسری شرط:یقین یقین شک کی ضد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ لا إلہ إلا اللہ کا پڑھنے والا یہ اعتقاد رکھے کہ صفاتِ الوہیت کا حق دار صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔اور اسے اس کی الوہیت پر ایسا یقین ِ جازم ہو کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِأَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ ’’مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر شک وشبہ نہیں کرتے اور اپنے مال اور جان کے ذریعے اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ‘ یہی لوگ سچے ہیں۔‘‘[4] اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کے سچے ہونے کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ مومن کا ایمان ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہو ، کیونکہ شک کرنا منافق کی صفت ہے نہ کہ مومن کی۔ لفظ(إنما)حصر کا فائدہ دیتا ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ سچے مومن بس وہی لوگ ہیں جن کا قول وفعل اور اعتقاد ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کے آخر میں فرمایا:﴿أُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ ’’ یہی لوگ سچے ہیں ‘‘ |