موت وحیات کی کشمکش میں تھا۔آپ نے اس سے پوچھا:تم کیا محسوس کرتے ہو ؟ اس نے کہا:اے اللہ کے رسول ! میں اللہ کی رحمت کا امید وار بھی ہوں اور اپنے گناہوں پر اس کے عذاب سے خائف بھی ہوں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(لاَ یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللّٰہُ مَا یَرْجُوْ، وَآمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ) ’’ اس جیسے موقعہ پر یہ دونوں چیزیں جس بندے میں جمع ہو جائیں تو اسے اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہو اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس کا اسے خوف ہو۔‘‘ [1] اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس عظیم کلمہ کے تقاضوں کو پورا کرنے اور زندگی کے آخری سانس تک اس پر قائم رہنے کی توفیق دے۔ دوسرا خطبہ برادران اسلام ! پہلے خطبہ میں آپ نے کلمہ طیبہ کے فضائل اور اس کے مفہوم کے متعلق ہماری چند گذارشات سماعت کیں ، اور اب اس کی شروط بھی سماعت کر لیجئے۔اور شروط سے مراد وہ امور ہیں جن کے بغیر اس پر ایمان درست نہیں ہوتا۔ لا إلہ إلا اللّٰہ کی شروط پہلی شرط:علم یعنی کلمۂ طیبہ کے معنی ومفہوم سے آگاہی اور واقفیت حاصل کرنا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ﴾ ’’ اچھی طرح جان لو ! کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ [2] ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علم میں دل کا اقرار ضروری ہے ، یعنی اس سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ اسے جانتا اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہو۔اور یہ علم جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یعنی علمِ توحید ‘ ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور کوئی شخص اس سے مستثنی نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ إِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’ مگر وہ جو حق کے ساتھ گواہی دیں اور انھیں علم بھی ہو۔‘‘[3] |