والوں کی پیروی کریں ! فرمان الٰہی ہے:﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ ’’ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔‘‘[1] حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:’’ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی بلکہ وہ جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہتے تھے تو یہ ان کی ابتاع کرتے تھے۔ اور یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی۔ ‘‘[2] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہی تفسیر حضرت حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے پہلے رکن(لا إلہ)کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تمام معبودانِ باطلہ ، تمام شریکوں ، طاغوتوں اور جن کو لوگوں نے اللہ کے علاوہ رب کی حیثیت دے رکھی ہے ان کی نفی کی جائے۔اور اللہ تعالی کے علاوہ ان تمام کا انکار کیا جائے جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں ، جن سے مانگتے ہیں ، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے ہیں ، جن سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، جن کو نفع ونقصان کے اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں اور جن کو بگڑی بنانے والا ، داتا ، دستگیر اور غوث مانتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد مکہ مکرمہ میں تیرہ سال رہے۔اس دوران لوگوں کو اسی بات کی طرف دعوت دیتے رہے کہ(قُوْلُوْا لاَ إلٰہ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا)یعنی تم سب اللہ تعالیٰ کو ہی معبود مان لو ، کامیاب ہو جاؤ گے۔تو وہ کہنے لگے:ایک ہی معبود کی بات ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی ! انھوں نے یہ اس لئے کہا کہ وہ’ ’لا إلٰہ إلا اللّٰه ‘‘ کا معنی سمجھتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ جو شخص یہ کلمہ پڑھ لے وہ غیر اللہ کو نہیں پکارتا۔اس لئے انھوں نے اسے پڑھنے سے انکار کردیا۔تب اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ إِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ﴾ ’’ انھیں جب یہ کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے۔‘‘[3] جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(مَنْ قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَرُمَ مَالُہُ وَدَمُہُ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ) ’’ جو آدمی لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہے اور اللہ کے علاوہ جس کی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کردے تو اس کا مال اور خون دونوں حرمت والے ہوجاتے ہیں۔اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ [4] |