Maktaba Wahhabi

83 - 492
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کی شہادت دینے سے غیر اللہ کی عبادت کا انکار لازم آتاہے ، جیسے فوت شدگان کو پکارنا وغیرہ۔بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ کئی مسلمان اس کلمہ کو اپنی زبانوں سے پڑھتے تو ہیں لیکن ان کے افعال اس کے معنی کے خلاف ہوتے ہیں۔ دوسرا رکن:اثبات(إلا اللّٰہ) کلمہ طیبہ کا دوسرا رکن ان امور کو شامل ہے: 1۔ صرف اللہ تعالیٰ کا قصد کرنااور بس اسی سے مانگنا یعنی بندہ اپنی عبادت میں اکیلئے اللہ تعالیٰ کا قصد کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔اور جب مانگے تو صرف اللہ تعالی سے مانگے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنُ ٭اَلاَ ِللّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی إِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ﴾ ’’ ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے۔لہذا آپ خالص اس کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اسی کی عبادت کریں۔یا رکھئے ! بندگی خالصتا اللہ ہی کیلئے ہے۔اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ)ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں یقینا اللہ ان کے درمیان فیصلہ کردے گا ، اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکرِ حق ہو ‘‘ [1] نیز فرمایا:﴿ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ﴾ ’’ کہہ دیجئے:مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خالصتا اسی کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کروں ‘‘ [2] اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ) ’’ جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ [3]
Flag Counter