Maktaba Wahhabi

79 - 492
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ اِلٰہ اِلَّااللّٰہُ ﴾ ’’ خوب اچھی طرح جان لو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔‘‘[1] لہذا اس کا معنی جاننا واجب ہے اور تمام ارکانِ اسلام پر مقدم ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(مَنْ قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) ’’ جوشخص پورے اخلاص کے ساتھ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ‘‘[2] اورمخلص وہ ہوتا ہے جو کلمہ طیبہ کو سمجھے ، اس پر عمل کرے اور سب سے پہلے اسی کی دعوت دے کیونکہ اس میں توحید کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کو پیدا کیا ہے۔ ’’ إلٰہ‘‘ کا مفہوم ’’ إلٰہ ‘‘ کا معنی معبود ہے یعنی جوعبادت کا استحقاق رکھتا ہو۔اور اللہ تعالی مستحقِ عبادت کیوں ہے ؟ اس لئے کہ وہ ایسے اوصاف سے متصف ہے جن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ آخری درجہ کی محبت کا حقدار ، وہی محبوب اور انتہائی اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار اسی کے لئے روا ہے۔ لہذا اللہ تعالی ہی وہ محبوب اور معبود ہے کہ دل محبت سے جس کی عبادت کریں ، اس کی اطاعت بجا لائیں ، اس کے لئے عجز ونیازمندی کا اظہار کریں، اس سے خوفزدہ ہوں، اس سے امیدیں وابستہ رکھیں، دشواریوں میں اس کی طرف رجوع کریں، مشکلات میں اسی کو پکاریں، اپنے مفادات میں اسی پر بھروسہ کریں، اسی کے پاس جائے پناہ تلاش کریں، اسی کی محبت میں سکون پائیں۔ اور جہاں تک لفظ جلالہ ’’اﷲ ‘‘ کا تعلق ہے تو یہ خالقِ کائنات کا اسمِ اعظم ہے اوریہ لفظ اس کے تمام اسمائے حسنی کے معانی اور صفاتِ علیا کو شامل ہے۔ اور یہ صرف ذاتِ الٰہی کا اسم مبارک ہے ، اسے اس کے علاوہ کسی اور کے لئے بولنا حرام ہے۔ ٭لفظ ’’ اللہ ‘‘ جب کبھی تنگی کی حالت میں ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے کو خیرِ کثیر سے نوازتا ہے۔فرمان الٰہی ہے:﴿ تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’ با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘[3] ٭لفظ ’’ اللہ ‘‘ جب کبھی خوف کی حالت میں پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ پکارنے والے کا خوف اور اس کی پریشانی کا ازالہ کرتا ہے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ ﴾
Flag Counter