لہذا جو شخص اِس کلمہ کو پڑھتا ہو اور اس پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ مشکلات ومصائب میں ، پریشانیوں اور آزمائشوں میں صرف اللہ تعالی کو پکارے۔وہ یقینا اس کی پریشانیوں کو ختم کردے گا اور مشکلات ومصائب کو ٹال دے گا۔ 8۔یہی کلمہ وہ عہد ہے کہ جس کے ذریعے شفاعت کی سعادت نصیب ہو گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لاَ یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ﴾ ’’ اس دن کوئی بھی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا مگر جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔‘‘[1] حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ’’ اس عہد سے مقصود لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دینا ہے ، جس کے ذریعے انسان اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر قسم کی طاقت وقدرت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اور یہی کلمہ ہر تقوی کی جڑ ہے۔‘‘ محترم بھائیو ! شفاعت کسی کی ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی شخص اس کا اختیار رکھتا ہے۔شفاعت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا ﴾’’ کہہ دیجئے کہ سفارش پوری کی پوری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ [2] لہذا کوئی شخص اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا۔حتی کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب اللہ تعالی اجازت دیں گے تو آپ شفاعت کریں گے۔جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کریں گے تو ان سے کم تر کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنا بڑا ولی یا امام کیوں نہ ہو وہ کسی کے حق میں اللہ کی اجازت کے بغیر کیسے شفاعت کر سکے گا ! اور شفاعت صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوگی جنھوں نے ایمان باللہ اور اتباعِ رسل کے ساتھ اللہ تعالی سے اس کا عہد لے رکھا ہے۔اور وہی لوگ شفاعت کے مستحق ہونگے جنھیں اللہ تعالیٰ شفاعت کیلئے پسند فرمائے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَلاَ یَشْفَعُوْنَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی ﴾ ’’اور وہ صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گے جس کیلئے اللہ راضی ہو گا۔‘‘ [3] بلکہ روز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی اسی شخص کو نصیب ہو گی جس نے دنیا میں اس کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہو گا۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے ؟ |