’’ دعوۃ الحق سے مقصود اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور پکار اور سوال کو اس کیلئے خالص کرنا ہے ، یعنی وہ اکیلا ہے جسے پکارا جا سکتا ہے ، صرف وہی ذات ہے جس کا خوف دل میں لایا جا سکتا ہے ، جس سے تمام امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ، اسی کی محبت کو دل میں بسایا جا سکتا ہے ، رغبت بھی اسی کی طرف کی جا سکتی ہے ، ڈر بھی صرف اسی کا ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کی الوہیت باطل ہے۔‘‘ 6۔یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ، بلکہ یہ تمام پردوں سے تجاوز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَا قَالَ عَبْدٌ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قَطُّ مُخْلِصاً إِلَّا فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَائِ حَتّٰی تُفْضِیَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ) ’’ کوئی بندہ جب پورے اخلاص کے ساتھ اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوئے لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو اس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ کلمہ عرش تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ [1] یعنی جو شخص یہ کلمہ پڑھتا ہے ، اس کے معانی کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اتارتا ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور اس کا تعلق براہ راست اللہ تعالی سے قائم ہو جاتا ہے۔ 7۔یہ کلمہ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اسی لئے حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اسی کلمہ کے ساتھ دعا کی:﴿ فَنَادٰی فِیْ الظُّلُمَاتِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ﴾ ’’ پھر انھوں نے اندھیروں میں پکارا:تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے۔اور میں ہی قصور وار تھا۔‘‘[2] اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِیْ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ ’’ تب ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں اس غم سے نجات دی۔اور اسی طرح ہم ایمان والوں کوبھی نجات دیا کرتے ہیں۔‘‘[3] اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُ بِہَا) ’’ جو مسلمان اس دعا کے ساتھ کسی بھی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے یقینا قبول کرتا ہے ‘‘[4] |