عزیزان گرامی ! یہ تمام باتیں اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کیلئے باعث رحمت تھے۔حتی کہ کافروں کیلئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہی رحمت تھے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کفار کی طرف سے جو پروپیگنڈا کیا جا رہے وہ سرا سر غلط ہے۔اللہ تعالی سب کو سمجھنے کی توفیق دے۔ دوسرا خطبہ عزیز ان گرامی ! کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافر وں کیلئے بھی رحمت تھے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے خلاف جنگیں کیوں ہوئیں ؟ جن میں ان میں سے کئی لوگ مارے بھی گئے ؟ تو اس سوال کے کئی جوابات ہیں: 1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہی تھے۔لیکن جو لوگ اسلام قبول کر نے سے انکار کرتے رہے ، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے رہے ، کفر اور شرک پر ڈٹے رہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار رہے ، صرف اُن کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو جہاد کی اجازت دی گئی۔اور اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا کہ ﴿ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ﴾ ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں۔مگر زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘[1] اور اس کی حکمت بھی بتا دی گئی کہ ﴿ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ اور ان سے جنگ کرو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کیلئے ہو جائے۔پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی پر زیادتی روا نہیں ہے۔‘‘[2] ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کی اجازت ایک تو مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کیلئے دی گئی۔دوسرا اس لئے کہ فتنہ باقی نہ رہے۔فتنہ سے مراد اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر طاقت ہے ، جس کی سرکوبی کی خاطر جہاد مشروع کیا گیا۔ 2۔ اسلام میں قتال کرنا اصل ہدف نہیں ہے۔بلکہ اصل ہدف یہ ہے کہ لوگ اسلام قبول کرلیں اور اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔یہی وجہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مجاہدین کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔اگر وہ اسے قبول کرلیں تو انھیں کچھ بھی اذیت نہ پہنچائیں۔اوراگر وہ اسے قبول نہ کریں توان سے جزیہ دینے کا مطالبہ کریں۔اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے کوئی تعرّض نہ کریں۔اور اگر وہ اس پر |