Maktaba Wahhabi

66 - 492
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ پیش کش کی گئی کہ دو پہاڑوں کو ملا کر مکہ کے کافروں کو پیس کر رکھ دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار کردیا۔اور فرمایا کہ ’’ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ان کی نسلوں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو اُس اکیلے کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے خلاف بد دعا نہیں کرتے تھے۔اور جب آپ کو یہ کہا گیا کہ ’ دوس ‘ قبیلے کے لوگ کفر پر اڑے ہوئے ہیں ، لہذا آپ ان پر بد دعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اَللّٰہُمَّ اہْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِہِمْ)’’اے اللہ ! دوس قبیلے کو ہدایت دے اور اسے میرے پاس لے آ۔‘‘[1] 3۔ جب کافروں نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان ِ احد میں زخمی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرۂ انور سے خون صاف کرتے ہوئے فرما رہے تھے:(اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)’’ اے اللہ ! میری قوم کو معاف کردے کیونکہ انھیں علم نہیں ہے۔‘‘ 4۔ جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم فتح ِ مکہ کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کے قتل عام کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا:(اِذْہَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ)’’ جاؤ تم آزاد ہو۔ ‘‘یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خون کے پیاسے نہ تھے۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کے خواہشمند تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چند لوگوں کے نام لے کر ان کی شدید اسلام دشمنی کی بناء پر انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا ان میں سے صرف چار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔باقی لوگوں کے اسلام لانے کے اعلان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا تھا۔مثلا عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ۔ 5۔ جن لوگوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو(نعوذ باللہ)قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے انتقام نہیں لیا ، بلکہ انھیں معاف کردیا۔جس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کھلایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قتل کرنے سے منع کردیا تھا۔اسی طرح لبید بن اعصم ، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قتل نہیں کیا تھا۔ 6۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں کفار کی عورتوں اور ان کے بچوں کو قتل کرنے سے منع کردیا تھا ، جب تک کہ کوئی عورت خود مسلمانوں کے خلاف قتال شروع نہ کرے۔ 7۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اہل الذمہ کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔اور ’معاہد ‘ کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتے تھے۔تاکہ وہ ان کے قریب ہوں اور ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیں۔
Flag Counter