Maktaba Wahhabi

489 - 492
ہوئے بھی یہی وتیرہ اختیار کرنا چاہئے۔ حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مشغول دیکھا تو آپ نے فرمایا: (یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ !)’’ اے تاجروں کی جماعت ! ‘‘ تو وہ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کا ارشاد بغور سننے کیلئے تیار ہو گئے۔تب آپ نے فرمایا:(إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ) ’’ بے شک تاجروں کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ گناہگار ہونگے سوائے اس کے جو اللہ تعالی سے ڈرتا رہا ، نیکی کرتا رہا اور سچ بولتا رہا۔‘‘[1] لین دین میں سچ بولنے کی بناء پر اللہ تعالی اس میں برکت دے دیتا ہے اور جھوٹ بولنے کی بناء پر اس کی برکت کو مٹا دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا) ’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں۔اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی۔اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو چھپائیں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی۔‘‘[2] جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ خرید وفروخت میں بہت زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔مثلا آپ کوئی چیز خریدنے گئے ، ابھی آپ اپنی منشاء کے مطابق اُس چیز کو دیکھ ہی رہے ہونگے کہ دوکاندار خود ہی اس کی تعریف کرنا شروع کردے گا۔اور اس کے بارے میں وہ باتیں بتائے گا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔مثلا وہ آپ کو بتائے گا کہ یہ چیز فلاں ملک کی بنی ہوئی ہے اور وہ اُس ملک کا نام لے گا جس کی پروڈکٹ لوگوں میں زیادہ پسندیدہ ہوگی ، حالانکہ وہ اُس ملک کی بنی ہوئی نہیں ہوگی۔پھر جب قیمت کی بات ہوگی تو وہ دانستہ طور پر بہت زیادہ قیمت بتائے گا ، تاکہ وہ گاہک کے ساتھ مک مکا کرتے ہوئے اسے اس قیمت پر لے آئے جس میں اس کیلئے اتنا نفع ہو گا کہ جو اس نے اپنے ذہن کے مکابق پہلے ہی طے کر رکھا تھا۔اگر گاہک کہے کہ یہ چیز مجھے اتنے میں دے دو تو وہ فورا کہے گا ، نہیں ، یہ تو میری خرید ہی نہیں ہے !!! حالانکہ اس کی قیمت ِ خرید اس سے بہت کم ہوگی۔پھر جب سودا طے ہو جائے گا تو گاہک مطالبہ کرے گا کہ میں دوں گا تو اتنے پیسے جتنے طے ہوئے ہیں لیکن آپ رسید زیادہ پیسوں کی بنا کر دیں ! کیونکہ ہو سکتا
Flag Counter