کی بچی آئے اور کہنے لگی:یا رسول اللہ ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر آپ کو اللہ تعالی صحیح سالم واپس لوٹا دے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر تم نے نذر مانی تھی تو دف بجا سکتی ہو ورنہ نہیں۔‘‘ چنانچہ وہ دف بجانے لگی۔اسی دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ دف بجاتی رہی۔پھر علی رضی اللہ عنہ آئے ، اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بدستور دف بجاتی رہی۔بعد ازاں عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے فورا دف کو اپنے پیچھے چھپایا اور اس پر بیٹھ گئی۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ عمر ! تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔یہ بچی میرے سامنے دف بجا رہی تھی ، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر علی رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر جب تم آئے تو اس نے اسے پھینک دیا۔‘‘[1] بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اِس حدیث میں مطلقا اِس بات کا جواز نہیں ہے کہ جو بھی سفر کے بعد واپس لوٹے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے دف بجائی جا سکتی ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بچی کو صرف نذر کی وجہ سے اجازت دی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر نذر نہیں مانی تو پھر دف مت بجاؤ۔یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ استقبال کے موقعہ پر دف بجانا مشروع نہیں ہے۔واللہ اعلم یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بعض لوگ اِس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو اُس وقت مدینے کی بچیوں نے ’دف‘ بجاتے ہوئے یہ اشعار پڑھے تھے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اگرچہ سیرت کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے ، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔کیونکہ اس میں تین یا اس سے زیادہ راوی ساقط ہیں اور اِس طرح کی روایت کو محدثین کی اصطلاح میں ’ معضل ‘ کہا جاتا ہے جو ضعیف کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس کو سند کے اعتبار سے درست بھی مان لیا جائے تو اس کا تعلق ہجرت کے واقعہ سے نہیں ہے کیونکہ ایک تو اس میں ہجرت کا ذکر ہی نہیں ہے ، دوسرا اس میں یہ جو کہا گیا ہے کہ(طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ)تو ’ثنیات الوداع ‘ مکہ سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے نہیں بلکہ شام سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے نظر آتی ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک کے بعد مدینہ منورہ کو واپس لوٹے تو شاید اُس وقت ان کے استقبال میں یہ اشعار پڑھے گئے۔لیکن ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اِس کی سند ضعیف ہے۔لہذا یہ ناقابل حجت ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں ’ دف ‘ کا تو سرے سے ذکر ہی |