Maktaba Wahhabi

478 - 492
ثابت ہے۔لہذا اس میں انقطاع نہیں پایا جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ مدلس راوی ہوتے تو ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف درست مانا جاتا ، لیکن کسی نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو مدلس نہیں کہا۔اس لئے ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف غلط ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ابن حزم رحمہ اللہ کی بات کو درست بھی مان لیا جائے تو اسی حدیث کو امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے متصل سند کے ساتھ روایت ہے۔لہذ۱ یہ حدیث یقینی طور پر صحیح ہے۔ دوسرا شبہہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس وقت تشریف لائے جب میرے پاس انصار کی نوخیز لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں ان اشعار کے ساتھ گا رہی تھیں جو ’ بعاث ‘ کے دن انصار نے پڑھے تھے۔اور حقیقت میں وہ گانے والی نہ تھیں۔یہ عید کا دن تھا۔چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:(أَمَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟) ’’ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز گونج رہی ہے ؟ ‘‘ تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(یَا أَبَا بَکْر ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَہٰذَا عِیْدُنَا) ’’ ابو بکر ! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے اور یہ ہمارا تہوار ہے۔‘‘[1] صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے اُسی دوران حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور اُس وقت دو نو خیز لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹ ڈپٹ کی۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ انور سے چادر کو ہٹایا اور فرمایا:(دَعْہُمَا یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّہَا أَیَّامُ عِیْدٍ) ’’ ابو بکر ! انھیں چھوڑ دو(اور مت روکو)کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو بھی موسیقی کو جائز قرار دینے والے لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔حالانکہ اِس میں ان کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ اِس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ دو نو خیز لڑکیاں جو اصلا ً گانے والی نہیں تھیں ، جنگی اشعار دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں۔تو بتلائیے اِس میں مروجہ گانے اور موسیقی کا جواز کہاں سے ملتا ہے ؟
Flag Counter