Maktaba Wahhabi

476 - 492
ہے۔لیکن بہت سارے لوگ اِس عظیم الشان نعمت کی قدر نہیں کرتے اور وہ اسے فضول وبے ہودہ کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔اور اِس لحاظ سے وہ یہ نعمت پاکر بھی خسارے میں رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ:اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ) ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں:تندرستی اور فارغ وقت۔‘‘[1] لہذا فار غ اوقات کو موسیقی وغیرہ میں برباد کرنے کی بجائے انھیں دینی لحاظ سے نفع بخش اور فائدہ مند کاموں میں مشغول کرنا چاہئے۔ دل کو بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا ذریعہ ! نام نہاد ’’ روشن خیال ‘‘ لوگوں کے فتوے کی بناء پر آج کل بہت سارے لوگ موسیقی کو دل بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں ! حالانکہ موسیقی دلوں کو مردہ کرتی اور فارغ اوقات کو برباد کرتی ہے۔اسلام میں دلوں کو سکون پہنچانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور وفکر کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ ’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘[2] اللہ کے ذکر سے مراد صرف تسبیحات پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع لفظ ہے جس میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والا اور اس کے قریب کرنے والا ہر لفظ شامل ہے ، چاہے علم کا حصول ہو، تعلیم ہو، امر بالمعروف ہو یا نہی عن المنکر ہو۔ اور شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب ’ ذکر اللہ ‘ کہا جائے تو اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ کے قریب کردے ، چاہے اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا سوچ وفکر سے ہو۔چاہے وہ دل کا عمل ہو یا بدن کا۔خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہو یا حصولِ علمِ نافع ہو۔اور اس جیسی باقی ساری عبادات اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہیں۔ لہذا یہ تصور کرنا غلط ہے کہ ذکر صرف تسبیحات میں ہی منحصر ہے ، ذکر ہر وہ عمل ہے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے انجام دیا جائے۔
Flag Counter