Maktaba Wahhabi

469 - 492
دوڑا لے۔اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو لے اور ان سے وعدے کر لے۔اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ سراسر دھوکہ ہے۔‘‘[1] اس آیت کریمہ میں(بِصَوْتِک)’’ اپنی آواز ‘‘ سے مراد موسیقی کی آواز ہے جس کے ساتھ شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے۔اور وہ انھیں اللہ تعالی کے دین سے دور رکھنے اور انھیں اس کے ذکر سے غافل کرنے کیلئے انھیں اپنی سریلی آوازوں میں مگن کردیتا اورراگ گانوں کا دلدادہ بنا دیتا ہے۔ امام مجاہد بن جبر المکی رحمہ اللہ(بِصَوْتِک)کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:(بِاللَّہْوِ وَالْغِنَائِ)’’بے ہودہ کلام اور موسیقی کے ساتھ ‘‘ یعنی اے ابلیس ! تو انسانوں میں سے جس پر قدرت حاصل کرلے اسے ہر قسم کے بے ہودہ کلام اور موسیقی وغیرہ کے ساتھ بہکا لے۔[2] تیسری آیت: اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ ٭ وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَ ٭ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ﴾ ’’کیا تم لوگ اِس بات(قرآن مجید)کو سن کر تعجب کرتے ہو ؟ اور ہنستے اور روتے نہیں ہو ؟ اور غفلت میں مبتلا ہنس کھیل رہے ہو ؟ ‘‘[3] اِس آیت کریمہ میں کفار کو توبیخ ہو رہی ہے کہ تم قرآن مجید کو سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہو اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنستے رہتے ہو ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تم اسے سن کر اس سے متاثر ہوتے اور رو دیتے۔لیکن تم اس کے برعکس ہنس کھیل رہے ہو اورتمھارے اوپر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا ؟ ﴿سٰمِدُوْنَ﴾ کا معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ کرتے ہیں کہ ’’ تم گانے سنتے رہتے ہو ‘‘ کیونکہ کفار مکہ جب قرآن سنتے تھے تو گانا بجانا شروع کردیتے تھے اور کھیل تماشے میں مگن ہو جاتے تھے۔اہلِ یمن کی زبان میں سَمَد گانے کو کہتے ہیں۔[4] تو اللہ تعالی نے اِس پر انھیں سختی سے ڈانٹا۔اور اس کے بعد اہل ایمان کو حکم دیا کہ ﴿ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾ ’’ پس تم اللہ ہی کیلئے سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی تم اُن کافروں کی طرح نہ بنو جو قرآن کو سن کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں،بلکہ تم قرآن مجید کو سن کر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو جایا کرو اور اس کی عبادت میں مشغول رہا کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالی نے کفار کو قرآن مجید کو چھوڑ کرگانے سننے پر سختی سے ڈانٹا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ گانے سننا اللہ کے نزدیک حرام ہے۔اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اللہ تعالی انھیں اِس فعل پر نہ ڈانتا۔
Flag Counter