Maktaba Wahhabi

468 - 492
کا سننا ہے۔[1] اسی طرح تابعین عظام رحمہ اللہ بھی اس کی تفسیر یہی کرتے تھے۔چنانچہ امام مجاہد بن جبر المکی ، جو علم تفسیر کے مشہور عالم تھے اور ان کے بارے میں امام سفیان رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ(إِذَا جَائَ کَ التَّفْسِیْرُ عَنْ مُّجَاہِدٍ فَحَسْبُکَ بِہِ) ’’ جب تمھارے پاس مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر آئے تو بس وہی تمھارے لئے کافی ہے۔‘‘ کیونکہ مجاہد رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر انہی سے سیکھی تھی ، وہ کہتے تھے کہ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾سے مراد گانے اور ہر بے ہودہ کلام کو سننا ہے۔ ایک روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں: (اِشْتِرَائُ الْمُغَنِّی وَالْمُغَنِّیَۃِ بِالْمَالِ الْکَثِیْرِ ، أَوِ اسْتِمَاعٌ إِلَیْہِ أَوْ إِلٰی مِثْلِہِ مِنَ الْبَاطِلِ) ’’ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾ کو خریدنے سے مراد گانا گانے والے مرد یا گانا گانے والی عورت کو مالِ کثیر کے بدلے خریدنا ، یا گانے سننا یا اس جیسے کسی اور باطل امر کی طرف متوجہ ہونا ہے۔‘‘[2] اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک اور قابل قدر شاگرد جناب عکرمہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے تھے کہ اس سے مراد گانا ہے۔[3] امام ابن جریر الطبری اپنی تفسیر میں یہ سارے اقوال ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہر وہ بات ہے جو اللہ کے دین سے غافل کرنے والی ہو ، جس کو سننے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا ہے… اور گانا اور شرک بھی اسی میں سے ہے۔[4] لہذا جو شخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص وسرور کی محفلوں میں شرکت کرتا ہو یا گھر میں بیٹھ کر ایسی محفلوں کا نظارہ کرتا ہو تو اس کیلئے اِس آیت کے مطابق رسوا کن عذاب ہے۔والعیاذ باللہ دوسری آیت: اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکالتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ ’’ اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے اپنی آواز کے ساتھ اسے بہکا لے۔اور ان پر اپنے سوار وپیادہ لشکر کو
Flag Counter